GHAG

ایک اور سپریم کورٹ کی ضرورت

شمس مومند

حضرت علیؑ سے منسوب یہ قول کافی مشہور ہے کہ (کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی) اسی طرح قصہ مشہور ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک صبح اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کا ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں۔ خوفناک بمباری کی وجہ سے برطانیہ کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔ چرچل نے اطمینان سے پوچھا کہ برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ چرچل نے پھر پوچھا کہ کیا وہ انصاف فراہم کررہی ہیں۔ ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں برطانیہ میں عدالتیں مکمل انصاف فراہم کررہی ہیں ۔ چرچل مسکرائے اور کہنے لگے کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو برطانیہ کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔

درج بالا اقوال کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم پاکستانی نظام انصاف پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں لا محالہ پاکستان کی سلامتی خطرے سے دوچار نظر آتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کوئی بھی محکمہ اور ادارہ موجودہ دور میں کوئی آئیڈئیل کام نہیں کر رہا ہے جسکی مثال پیش کی جاسکے مگر ہمارے نظام عدل کا ایک ایک پرزہ پاکستان کی تباہی اور عوام میں پھیلی بے چینی اور افراتفری کا ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً ایف آئی آر کے اندراج اور محکمہ تفتیش سے شروع کیجئے۔ تھانے میں بیٹھا محرر ایف آئی آر ایسی ثقہ اور بامحاورہ اردو میں تحریر کرتا ہے جس کو سوائے پولیس اہلکاروں کے کوئی اردو دان پڑھ اور سمجھ نہیں سکتا ہے۔ یعنی اس پر لکھے موسی پڑھے خدا کا محاورہ بالکل صادق آتا ہے۔ تفتیش پر مامور اہلکاروں کی ایک آنکھ شواہد اور کاغذ پر اور دوسری آنکھ مدعی اور مدعا علیہ کی جیب پر ہوتی ہے۔اور اسی طرح ضمنیوں کے نام پر جو فریق جب چاہے اور جیسا چاہے قیمت دیکر ایف آئی آر اور شواہد میں من پسند تبدیلیوں کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ماتحت عدالتوں سے لیکر ہائی کورٹس تک میں  وکلاٗ کے دلائل سے زیادہ ان کی سنیارٹی اور بار ایسوسی ایشن میں انکے مقام و مرتبے کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ کمزور کیس والے وکیل کی جانب سے تاریخ پہ تاریخ لینا تو انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اور وکیل نہیں جج کرلو کا مشہور جملہ ماتحت عدلیہ میں موجود کرپشن او انہی زمینی حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔

جہاں تک اعلی عدلیہ یعنی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا تعلق ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک کے بعد شروع ہونے والا جوڈیشل ایکٹیو ازم اب پولیٹیکل ایکٹیو ازم کی طرف بڑھتا دکھا ئی دیتا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے من پسند اور قانون سے بالاتر فیصلوں سے ثابت کیا کہ چیف جسٹس قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔ان کا کہا ہوا قانون ہوتا ہے۔ اور پاکستانی نظام انصاف میں چیف جسٹس کے فیصلوں پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک موجودہ دور میں ایک ہی آئین و قانون کے تحت قائم مختلف ہائی کورٹس کے متضاد فیصلوں کا تعلق ہے۔ یہ نظام انصاف کا منہ چھڑانے کے مترادف ہے۔ یعنی سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل عدالتی کمیشن ایک فیصلہ جاری کرتا ہے مگر دوسرے ہائی کورٹ کے جج صاحبان وہ فیصلہ تو درکنار کمیشن ہی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے یعنی ایک ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کومنسوخ کرنے کا فیصلہ سناتا ہے مگر سپریم کورٹ خاموش تماشائی بنا ہوتا ہے۔

دو سال پہلے پرویز الہی اور حمزہ شہباز حکومتوں کو میوزیکل چئیر کی طرح تبدیلی کا کھیل بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے فیصلوں پر کھیلا گیا اور آئین کے ایک ہی دفعہ کی دو مرتبہ من پسند سیاسی تشریح بھی انہی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے کردار پر تاریخ میں بد نما داغ کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ کاروباری شخصیات ،بنک ڈیفالٹرز، ٹیکس نادہندگان ،منشیات فروشوں اور سمگلر مافیاز کو مسلسل اور بار بار ریلیف اور سٹے پر سٹے دینا ہماری اعلی عدلیہ کے کردار پر وہ اٹھتے سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

ایک طرف اعلی عدلیہ میں زیر التوا عوامی کیسز اور اپیلوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ہزاروں بے گناہ لوگ اپیلوں کے فیصلوں کے انتظار میں جیل کاٹ رہے ہیں مگر دوسری جانب ہماری اعلی عدلیہ سیاسی کیسز لینے کی حوصلہ افزائی سے باز نہیں آرہی ہے۔ ان کی نظر میں موت کی کوٹری میں بند شخص کی اپیل سننا زیادہ ضروری نہیں مگر سیاسی کیسز ترجیحا سننا زیادہ ضروری ہے۔ غریب عوام کی زندگی اور موت کے کیسز سالہاسال زیر التوا پڑے رہتے ہیں مگر سیاسی کیسز ہفتوں اور مہینوں میں نہیں گھنٹوں میں سماعت کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں۔

درجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اعلی عدلیہ کوئی ریاستی اور آئینی ادارہ نہیں بلکہ حکومت مخالف کوئی فورم ہے جس کاکام حکومت کے ہر کام اور فیصلے میں روڑے اٹکانا ہے اور حکومتی مخالفین خواہ وہ سیاسی مخالفین ہو یا پھر ٹیکس چور سمگلرز اور قرضہ ہڑپ کرنے والے وغیرہ کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

درجہ بالا حقائق کی روشنی میں دست بستہ عرض ہے کہ خدا کے لئے حکومت پارلیمنٹ اور عدلیہ ملکر فوری اور بھر پور جوڈیشل ریفارمز کو یقینی بنائے۔ اگر سیاسی کیسز ترجیحی بنیادوں پر سننا اتنا ہی ناگزیر ہے تو اس کے لئے الگ آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کا ایک ہی مستقل بنچ بنایا جائے۔ تمام ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا ازسر نو جائزہ لیکر انہیں اپنے کام حدود اور اختیار تک محدود کیا جائے۔ ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp