GHAG

تھیوری سےزیادہ عملی تربیت کی ضرورت

اےوسیم خٹک

آج کل کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں، کیریئر بنانے کے لئے اسکول، کالج، اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا معمول کی بات ہے۔ لیکن کیا یہ راستہ ہر کام اور ہر فرد کے لیے بہترین ہے؟ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کام کی جگہ پر براہ راست تعلیم اور تربیت نہ صرف زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے بلکہ یہ بعض اوقات روایتی تعلیم کے مقابلے میں بہتر نتائج بھی فراہم کر سکتی ہے۔

جب ہم مکینیکل انجنیئر اور کار مکینک کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں کی مہارتیں اور تعلیمی پس منظر مختلف ہوتے ہیں۔ مکینیکل انجنیئر عام طور پر تعلیمی اداروں سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرتے ہیں جہاں ان کا تعلیمی نصاب زیادہ تھیوریٹکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف، کار مکینک عملی مہارتوں اور تجربات پر زیادہ فوکس کرتے ہیں، اور ان کی تعلیم اکثر ووکیشنل اسکولز یا اپرنٹس شپ پروگرامز کے ذریعے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کو اپنی گاڑی میں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو آپ اسے مکینیکل انجنیئر کے پاس نہیں بلکہ کار مکینک کے پاس لے جائیں گے، کیونکہ کار مکینک کو عملی تجربہ ہوتا ہے جو فوری اور مؤثر حل فراہم کرتا ہے۔

ایلون مسک نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے ایک منفرد راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو روایتی اسکول سے نکال کر اپنی کام کی جگہ پر براہ راست تعلیم اور تربیت دینے کا فیصلہ کیا۔ جہاں صرف ان کے بچے نہیں بلکہ ان کے ساتھی ملازمین کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس اسکول میں بچوں کو عملی تجربات، پروجیکٹس، اور انٹرایکٹو طریقوں سے تعلیم دی جاتی ہے، جس سے ان کی سیکھنے کی صلاحیتیں اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستانی سوسائٹی کے تناظر میں، جہاں لوگ عموماً عملی کام کی بجائے بچوں کو تھیوری پر توجہ دیتے ہیں اور اسکول، کالج، اور یونیورسٹی میں بھیجتے ہیں، وہاں بھی کام کی جگہ پر عملی تربیت کی اہمیت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو عملی میدان میں کام کرتے ہیں اور تجربات سے سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء یونیورسٹی میں تھیوری تو سیکھتے ہیں، لیکن حقیقی صحافت کا تجربہ انہیں اخبارات میں کام کرنے کے دوران ملتا ہے۔ اسی طرح، بنکنگ اور اکاؤنٹس کے طلباء بھی بنک میں کام کرنے کے بعد ہی مہارت حاصل کرتے ہیں۔ سول انجنیئر اور مکینیکل انجنیئر بھی فیلڈ میں کام کرنے کے بعد ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

پاکستان میں روایتی تعلیمی نظام میں تھیوری پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طلباء کو عملی تجربہ کم ملتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ طلباء عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک طالب علم جو انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرتا ہے، اسے فیلڈ میں جا کر مختلف تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا حل وہ صرف تھیوری کی بنیاد پر نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح، ایک طالب علم جو بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کرتا ہے، اسے بزنس مینجمنٹ کی عملی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لئے عملی تربیت ضروری ہوتی ہے۔

اگرچہ ڈگری حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن عملی کام بے حد ضروری ہے۔ عملی تجربے سے طلباء کو نہ صرف مہارت حاصل ہوتی ہے بلکہ انہیں اپنے کام کے میدان کی حقیقی صورتحال کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ بہت سے پیشہ ور افراد اپنے بچوں کو اپنی یا اپنے دوستوں کی کام کی جگہ پر لے جاتے ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں کا عملی تجربہ حاصل کر سکیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کا بچہ کاروں میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے کار ورکشاپ میں لے جا کر وہاں کے کاموں کا مشاہدہ کروایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کسی بچے کو کمپیوٹرز میں دلچسپی ہے تو اسے کسی آئی ٹی کمپنی میں لے جا کر وہاں کے کاموں کو دیکھنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح، بچے نہ صرف اپنے شوق کو پہچانتے ہیں بلکہ انہیں اپنی دلچسپیوں کے مطابق کیریئر کا انتخاب کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

پاکستان میں بھی یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو عملی تربیت فراہم کرنے کے لئے مختلف اداروں میں بھیجتے ہیں۔ اس سے بچوں کو نہ صرف انڈسٹری کا تجربہ ملتا ہے بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی اور کام کی مہارتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ اس طرح، عملی تربیت اور تعلیم دونوں کا امتزاج ایک کامیاب کیریئر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ عملی تربیت سے طلباء کو مارکیٹ کی ضروریات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور وہ بہتر طریقے سے اپنے کیریئر کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ تھیوری اور عملی تربیت کا ایک بہتر امتزاج فراہم کریں تاکہ طلباء کو مکمل تربیت حاصل ہو سکے اور وہ مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کر سکیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts