یہ بات قابل تشویش ہے کہ پی ٹی آئی نے مسلسل ناکامیوں اور شرمندگی اٹھانے کے باوجود ریاست مخالف پروپیگنڈا کی اپنی پالیسی نہ تو ترک کی ہے اور نہ ہی اس بات کا کوئی جائزہ لیا ہے کہ مسلسل غلط بیانی اور منفی پروپیگنڈا سے اس پارٹی نے کیا پایا اور کیا کھویا ہے؟ اس بات پر سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی کہ اس تمام صورتحال اور رویہ کے معاشرے پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور خود اس پارٹی کے کارکنان کی ذہنیت اور نفسیات پر کتنا منفی اثر پڑتا ہے۔
جب سے پی ٹی آئی نے سیاست میں قدم رکھا ہے سازشی نظریات اور ان کی بنیاد پر کشیدگی اور بے چینی بڑھانے کی پالیسی اس پارٹی کا وطیرہ رہا ہے۔ نام و نہاد سوشل میڈیا پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے ذریعے اس پارٹی نے جہاں عوام خصوصاً نئی نسل کو ریاست سے متنفر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا وہاں مسلسل کوشش کی گئی کہ اپنے بانی کو نہ صرف یہ کہ کوئی “مافوق الفطرت” شخصیت قرار دیتے ہوئے ایک نجات دہندہ کی شکل میں پیش کیا جائے بلکہ ریاست کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے قائدین کو بھی بے توقیر کیا جائے۔
شخصیت پرستی نے اب عقیدت پرستی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ پارٹی چلانے کے لیے “جنات اور عملیات” پر انحصار کیا جانے لگا ہے اور اس خطرناک رویہ نے دوسروں کے علاوہ پی ٹی آئی کے اپنے سنجیدہ حلقوں اور رہنماؤں کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔
اس ضمن میں 26 نومبر کی شام کو ہونے والے واقعات کی مثال دی جاسکتی ہے جس کے بعد صوبے کے ایک چیف ایگزیکٹو سمیت بعض دیگر مرکزی قائدین نے حقائق مسخ کرکے ثبوت پیش کیے بغیر یہ پروپیگنڈا کیا کہ اسلام آباد میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کارکنوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ بعض “لاشوں” کو غائب کردیا گیا ہے۔
اس پر ستم یہ کہ غزہ اور کرم کی ویڈیوز کو ری ڈیزائن کرکے اسلام آباد ایونٹ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ حسب معمول آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذرائع استعمال کئے گئے اور باہر بیٹھے اسپانسرڈ یو ٹیوبرز وغیرہ سے اشتعال انگیز پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس سے قبل یہ پارٹی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور بلیک میلنگ کے لیے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو “ڈالری جنگ” قرار دیتی رہی حالانکہ پوری دنیا کو علم ہے کہ کن دہشت گرد گروپوں نے پاکستان میں بدترین دہشتگردی کی بنیاد رکھتے ہوئے تقریباً ایک لاکھ پاکستانیوں کو شہید کردیا جن میں تقریباً 40 ہزار فورسز کے جوان اور افسران بھی شامل ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس پارٹی نے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے خوفناک حملے کو بھی ریاستی سازش قرار دے دیا حالانکہ اس واقعے کے دوران خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی ہی کی حکومت تھی اور بعد میں ایک تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے نہ صرف ذمہ داران کا تعین کیا گیا بلکہ بعض سرکاری اہلکاروں، افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی گئی۔
حالت تو یہ بھی رہی کہ اس پارٹی کی گزشتہ صوبائی حکومت نے ریاستی اداروں اور سیاسی مخالفین کو ڈی ویلیو اور مشکوک بنانے کے لیے کروڑوں، اربوں کی سرمایہ کاری سے سینکڑوں نوجوانوں پر مشتمل ایک باقاعدہ ” گالی بریگیڈ” بناکر ایک خطرناک مثال بھی قائم کی۔ اب اس ماڈل کو مزید توسیع دیکر صوبے کے سرکاری وسائل سے ایک باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ قائم کی جارہی ہے جس کو ایک ادارے کی شکل دی جارہی ہے۔ دوسری جانب مین سٹریم میڈیا کو دیوار سے لگاتے ہوئے جہاں ایک طرف ان کی واجبات وغیرہ ادا نہیں کی جارہی وہاں سینکڑوں میڈیا کارکنوں کو بے روزگار کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا۔
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کیلئے لازمی ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت اپنی پروپیگنڈا اور میڈیا پالیسی پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اختیار کریں اور بے چینی بڑھانے کا رویہ ترک کیا جائے ۔