GHAG

ریاست پاکستان کے خلاف نئی صف بندی، پی ٹی ایم کا جرگہ اور پابندی

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پی ٹی ایم کے جرگے کی حمایت، امراللہ صالح اور بعد دیگر بھی پی ٹی ایم کی حمایت میں سرگرم عمل

متعدد اہم رہنماؤں کی دو گروپوں کی دعوت پر امریکہ روانگی

افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے حالات پر اظہار تشویش

پشاور (خصوصی رپورٹ) پاکستانی ریاست کے خلاف جاری دہشت گردی،  سیاسی سرگرمیوں اور پروپیگنڈا کے علاوہ نئی سفارتی اور صحافتی سرگرمیوں میں بھی اچانک غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے اور اس تمام صورتحال کے تناظر میں متضاد الخیال گروپ بھی نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک پیج پر آکر ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی ریاست مخالف مورچہ بندی اور کالعدم ٹی ٹی پی کی پی ٹی ایم کی حمایت

اس ضمن میں جہاں ایک طرف تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت نے ریاست کے خلاف مورچہ بندی کرلی ہے وہاں 11 اکتوبر کو ضلع خیبر میں ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کی نہ صرف یہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے حمایت کا فیصلہ کردیا ہے بلکہ اس ایونٹ کے “احترام” میں 5 روزہ سیزفائر کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے امیر نورولی محسود کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی بیان میں پی ٹی ایم کے ریاست مخالف بیانیہ کی تائید کی گئی ہے اور اس پشتونوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے خلاف صف آراء ہو۔

افغان عبوری حکومت اور سابق عہدیداران کے بیانات

دوسری جانب افغان عبوری حکومت نے “کمال مہارت” کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک رسمی بیان میں پاکستان کے معاملات اور حالات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ افغانستان اس تمام صورتحال کی سخت مانیٹرنگ کررہا ہے۔ سابق نائب افغان صدر اور پاکستان، پشتون مخالف رہنما امراللّٰہ صالح کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تمام لوگ پی ٹی ایم کے جرگے میں اپنی شمولیت کو یقینی بنائیں۔

بیرون ملک لابیز کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا

دوسری جانب امریکہ میں موجود دو پاکستان مخالف لابیز اور گروپوں نے پاکستان کے متعدد ان لیڈرز،تجزیہ کاروں اور مختلف شعبوں کے دیگر لوگوں کو بڑی تعداد میں مدعو کرتے ہوئے ان کے لئے ایونٹس کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو کہ پاکستان مخالف سمجھے جاتے ہیں اور ان میں اکثریت پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس کے علاوہ امریکی، بھارتی اور برطانوی میڈیا کے ذریعے ان عناصر کو بہت زیادہ اہمیت اور کوریج سے نوازا جارہا ہے اور مزید متعدد افراد کی روانگی پائپ لائن میں ہے۔

پی ٹی آئی کے سپانسرڈ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کا پشتونوں کو استعمال کرنے کا حربہ

مولانا فضل الرحمان اور بعض دیگر لیڈروں نے واضح کردیا ہے کہ حکومت کی سیاسی مخالفت کے باوجود ریاست پاکستان کے خلاف کسی اقدام یا سرگرمی کی سخت مخالفت کی جائے گی جبکہ متعدد معتبر تجزیہ کاروں نے بھی ان تمام سرگرمیوں اور غیر فطری Nexus پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ اس تمام مہم جوئی کو تحریک انصاف کے ان اسپانسرڈ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ہینڈلرز کی جانب سے بھرپور کوریج سے نوازا جارہا ہے جو کافی عرصے سے یہ بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے پشتون ریاست کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔

سعدیہ ستار، تجزیہ کار

ممتاز تجزیہ کار سعدیہ ستار نے اس ضمن میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک منظم پروپیگنڈے کا تسلسل ہے جو بھارتی معاونت اور سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کے خلاف جاری ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام مزاحمت یا بغاوت پر اتر آئے ہیں حالانکہ عملاً ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے حالات تقابلی جائزے کے مطابق بہت بہتر اور مختلف ہیں۔ ان کے بقول یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان کے اکثر قائدین کو اس مہم جوئی کا ادراک نہیں ہے اور مین سٹریم میڈیا بھی بھارتی پروپیگنڈا کو کاؤنٹر کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔

انجنیئر احسان اللہ، ترجمان عوامی نیشنل پارٹی

اے این پی کے مرکزی ترجمان انجینئر احسان اللہ نے اپنی گفتگو میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی ایم پر لگائی گئی پابندی کا کوئی جواز نہیں بنتا بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو بولنے دیا جائے تاہم تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت نے ریاست اور سیاست کے علاوہ معیشت اور معاشرت کو تباہ کرنے کا جو رویہ اختیار کیا ہے اس کا ہر سطح پر سخت نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس پارٹی کی سرگرمیاں ناقابل برداشت ہوگئی ہیں۔ ان کے مطابق یہ تاثر بہت ہی غلط ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کی اکثریت نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے ہیں۔تین کروڑ سے زائد کی آبادی رکھنے والے صوبے کے محض 32 ۔ 33 لاکھ لوگوں نے اس پارٹی کو ووٹ دیے ہیں۔ ان کے مطابق اس پارٹی کی صوبائی حکومت نہ صرف طالبان وغیرہ کی حامی ہے بلکہ یہ معاشرے میں انتشار اور منافرت کو بھی فروغ دینے میں مصروف عمل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp