GHAG

غم وخوشی بہن بھائی

شمس مومند

11 جولائی کا دن خیبر پختونخوا کے عوام کے لئے غم اور خوشی کی دو خبریں ایک ساتھ لے کے آیا۔ ایک طرف ایک نوجوان انقلابی شاعر اور نوجوانوں کے پسندیدہ و متحرک رہنما گیلہ من وزیر جو قاتلانہ حملے میں زخمی ہوکر اسلام آباد کے ہسپتال میں زیر علاج تھے ،زخموں کی تاب نہ لاکر خالق حقیقی سے جاملے۔ان کی شہادت پر پشتون نوجوانوں نے انتہائی دکھ اور غم کااظہار کیا اور اسکی لاش کو اپنے آبائی علاقے کو لے جاتے ہوئے جگہ جگہ ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

مگر دوسری جانب باجوڑ میں طویل عرصے بعد قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوان امیدوار نثار باز نے پی کے 22 کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے قوم پرست نوجوانوں کو نیا حوصلہ دے دیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت اور بانی پی ٹی آئی کیساتھ کارکنوں کی بے تحاشا محبت کے باوجود باجوڑ میں اس پارٹی نے گزشتہ چھ مہینے کے دوران منعقد ہونے ان تینوں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطیاں دہرائی ہے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ 8 فروری کے انتخابات کے لئے ایک حقیقی کارکن کی بجائے سابقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ٹکٹ دینا غلط فیصلہ تھا جس نے کارکنوں کو مشتعل کیا اور انھوں نے ملکر ریحان زیب کو امیدوار بنالیا۔ انکی شہادت کے بعد چاہیے تھا کہ پارٹی احساس کرکے انکے بھائی کو ایک سیٹ کے لئے امیدوار نامزد کرتی مگر انھوں نے پھر غلطی دہرائی اور دونوں سیٹیں ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب جیت گئے۔ تیسری مرتبہ ایک اور نئے امیدوار کو سامنے لانے والے فیصلے نے پارٹی کارکنوں کو اتنا مایوس کیا کہ وہ انتخابات سے ہی لاتعلق ہوگئے۔بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ پی ٹی آئی فیکٹر درمیان سے نکلنے کے بعد زیادہ تر کارکن واپس اپنی  پارٹیوں کی طرف رجوع کر گئے تو غلط نہ ہوگا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ روایتی حریف جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی آمنے سامنے آگئے اور اس دوڑ میں اے این پی کے نوجوان امیدوار نثار باز جو ایک بہترین مقرر اور نوجوان قوم پرست دانشور کے طور پر اپنی پہچان بنا رہے ہیں کامیاب قرار پائے۔یہ دن یقینا ًصوبہ بھر میں قوم پرست نوجوانوں کے لئے امید کی نئی کرن اور خوشی کا دن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان ایک طرف اس جیت کی خوشی منارہے ہیں تو دوسری جانب گیلہ من وزیر کی وفات نے انہیں غم زدہ کردیا ہے۔

اگرچہ گیلہ من وزیر کی زندگی میں ان کے بعض باغیانہ خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن گزارش یہ ہے کہ جب انکے قاتل معلوم ہے تو پھر انکی وفات پر غیر ضروری بلیم گیم اور ایک پژمردہ تحریک میں نئی جان ڈالنے کے لئے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی ضرورت نہیں۔ میری یہ بات کئی لوگوں کو ناگوار لگے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک میں موجود امن و امان کی ابتر صورتحال اور عزم استحکام کے نام سے نئی کارروائیوں کے تناظر میں تمام قوم کو انتہائی سنجیدگی کیساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خطے میں امن استحکام  اور ترقی کا خواب جذباتی نعروں نہیں بلکہ سنجیدہ سیاسی ڈائیلاگ کا متقاضی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp