GHAG

پی ٹی ایم پر غیرپاکستانیوں کا کنٹرول کیوں؟

تحریر : ڈاکٹر عثمان علی

16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور کے المناک واقعے کی جہاں دنیا بھر نے شدید مذمت کی، وہاں پختونخوا میں غم و غصے کی ایک بھرپور لہر اٹھی۔ اس واقعے کے خلاف سخت احتجاج کیے گئے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ ابھی یہ احتجاج جاری ہی تھا کہ 13 جنوری 2018ء کو کراچی میں نقیب اللہ محسود کا قتل ہوا، جس کے خلاف جنوبی وزیرستان میں چند نوجوانوں نے ‘محسود تحفظ موومنٹ’ بنا کر اس قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ جب اس کو پذیرائی ملی تو اس تنظیم کا نام تبدیل کر کے “پشتون تحفظ موومنٹ“ رکھا گیا۔

اس کے مقاصد میں پشتونوں کی زندگیوں اور حقوق کا تحفظ، لاپتہ افراد کی بازیابی، اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حقائق اور مفاہمتی کمیشن کا قیام شامل تھے۔ علاوہ ازیں پشتونوں کے علاقوں سے لینڈ مائنز اور چیک پوسٹوں کا خاتمہ، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی مکمل بحالی اور تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرنا بھی شامل تھا۔ پختونخوا اور بلوچستان کے عوام، خصوصاً نوجوانوں نے اس تحریک کو اپنی آواز سمجھا اور بڑی تعداد میں اس میں شامل ہوگئے۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اپنے قیام سے لے کر اب تک مختلف مراحل سے گزری۔ یہ اندرونی اختلافات کا بھی شکار رہی اور بہت سے سینئر رہنما اسے چھوڑ گئے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر، بہت سے لوگ جو شروع میں اس کی بھرپور حمایت کر رہے تھے، وہ بھی خاموش ہوگئے۔ آہستہ آہستہ یہ تحریک جن مقاصد کے لیے وجود میں آئی تھی اس کے بجائے فوج اور پاکستان کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک کا روپ اختیار کر گئی۔ خاص طور پر بیرون ممالک میں اسے پاکستان کے خلاف اور پاکستان سے آزادی کی ایک تحریک کے طور پر جانا جانے لگا۔’لر اور بر’ کے نام پر اس تحریک کو مکمل طور پر غیر پاکستانیوں نے ہائی جیک کر لیا اور جب بھی موقع ملا، اس پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاکستان کی تضحیک کی گئی اور یہاں تک کہ اس کے جھنڈے بھی جلائے گئے۔

پی ٹی ایم کے قیام، اس کے تشہیر کردہ مقاصد اور اس میں چند سنجیدہ رہنماؤں کی موجودگی کو دیکھ کر ہم نے بھی ہر فورم پر اس کی بھرپور غیر مشروط حمایت کی۔ میری منظور پشتین سے ملاقات میں یہ بات ہوئی تھی کہ اگر یہ پاکستان کے سبز جھنڈے تلے، پاکستان کے آئین میں دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد ہے تو میری ہر حمایت حاصل ہوگی۔ لیکن جب بیرون ممالک میں اس کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اور بہت سے لوگوں نے اسے سیاسی پناہ کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کیا،جو اپنے پناہ کے کیس بنانے کے لیے افغانستان کے جھنڈے کی قمیصیں پہن کر پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف چوکوں چوراہوں میں تقریریں کرتے تھے اور گالیاں دیتے تھے، میں نے اس پر بھی منظور پشتین سے بات کی۔

جب ایک بیرون ملک کی فنڈنگ اور سوات میں وصول کیے گئے پیسوں کا ذکر ہوا تو میں اس کو بھی پی ٹی ایم کے نوٹس میں لایا، جس پر وہ بجائے کوئی ایکشن لینے کے ناراض ہوگئے۔ بلکہ مجھے، جس کی ساری زندگی عوامی حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری، آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جنہوں نے بھی ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی، ان کی اصلاح کی کوشیش کی انہیں “گل خان” کے نام سے یاد کیا گیا اور گالیاں دی گئیں۔

پاکستان کے اندر بھی ان کی کارروائیاں سب کے سامنے ہیں۔ اگر کسی کو ذاتی دشمنی میں مارا گیا، تو اس کا مجرم بھی فوج اور ملک کو قرار دے کر اس پر سیاست کی گئی۔پاکستانی ریاست اور فوج بھی کوئی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہیں، اور انہی کی کارروائیوں کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لیکن اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہر غلط کام اور ہر جرم کا الزام صرف ان پر ڈالنا بھی جائز نہیں۔ پختون پہلے سے بہت سے مسائل سے دوچار ہیں، اگرچہ وہ خود بھی بہت حد تک ان کے ذمہ دار ہیں، لیکن ان کی آواز سننے کی ضرورت ہے۔

پختونخوا اور بلوچستان کو بار بار لیبارٹری بنانے کا عمل اب بند ہونا چاہیے۔ پابندیاں اور تشدد کسی بھی صورت مسائل کا حل نہیں ہیں۔ ہر قسم کا تشدد قابل مذمت ہے ۔ ریاست کو نوجوانوں کو دھتکارنے کے بجائے سینے سے لگانا چاہیے۔ اگر کسی تنظیم کے چند رہنما نامناسب کارروائیوں میں ملوث ہیں، تو یہ ضروری نہیں کہ ان کے تمام پیروکار بھی اسی طرح کے خیالات رکھتے ہوں۔ بہت سے لوگ ان اندرونی مسائل سے بے خبر ہیں، وہ تو اپنے مقاصد کے لیے مخلص ہیں اور مخلصانہ جدوجہد کر رہے ہیں ۔ حالیہ سوات امن مارچ سے ثابت ہوتا  ہے  کہ ان تنظیموں  کے نہ ہوتے ہوئے بھی لوگ اپنے  مسائل اور حقوق کے لیے خود سے بڑی تعداد میں نکلتے ہیں اور سیاست کے بجائے اپنی بات کرتے ہیں اور موثر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ عوام کے نبض کو سمجھتے ہوئے ان سے بات کی جائے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp