GHAG

باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد ، حقیقت یا افسانہ

تحریر:خالد خان

( پہلا حصہ)

سرحدی گاندھی ، باچا خان اور فخر افغان کےالقابات سےتاریخ میں امر ہونے والے خان عبدالغفار خان ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ برصغیر کی آزادی یقیناً انکے اور انکی ساتھیوں کی قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ پشتونوں کی تاریخ میں ان سے بڑے مصلح آج تک نہیں گزرے ہیں۔ سامراج کے مدمقابل ہونے کی وجہ سے وہ اپنے جدوجہد کے ابتدائی زمانے سے ہی  مختلف الزامات کے زد میں تھے اور انکے خلاف انگریز سرکار نے شدید زہر افشانی کی تھی جسکے اثرات سو سال سے زیاد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی محسوس کیئے جاسکتے ہیں۔ اگر چہ باچا خان کے بارے میں بہت زیادہ لکھا گیا ہے مگر ان سب تحاریر کا المیہ یہ ہے کہ یہ تو یا ان کے مخالفین نے لکھا ہے اور یا انکے عشاق کے قلموں سے نکلا ہوا ہے اور یوں یہ تمام تصنیفات غیر جانبدار نہیں کہلائے جاسکتے اور نہ ہی اسے سائنسی سند عطا کی جاسکتی ہے۔ ان غیرحقیقت پسندانہ تصانیف، مضامین اور تحاریر نے باچا خان کو کبھی بھی خالص سائنسی تحقیقی انداز میں پیش نہیں کیا ہے۔ ان تحاریر پر ذاتی میلانات اور رحجانات کے اتنے گہرے رنگ چھائے ہوئے ہیں کہ باچا خان کی عظیم و بلند شخصیت کے رنگ نظروں سے اوجھل ہیں۔

سیاسی اعتراضات اور تنقید کی زد میں انکا فسلفہ عدم تشدد بہت زیادہ زیر بحث رہتا ہے۔ ان سطور میں کوشش کی گئی ہے کہ باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد پر سیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے اسکا سائنسی جائزہ لیا جائے۔ خود پشتون باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد پر منقسم ہیں۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ عدم تشدد پشتون فطرت کی نفی تھی اور یوں باچا خان نے اصل پشتون فطرت کو منہدم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں غیر فعال، غیرمؤثر اور کم ہمت بنا کر رکھ دیا تھا۔ بعض ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ عدم تشدد کا فلسفہ دراصل انگریزوں کے مفاد میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ ان کی جان، مال اور آبرو محفوظ رہے۔ ناقدین کے دونوں گروہوں کے مطابق باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد غلط، ناقص اور قومی نفسیات کے خلاف تھا۔ دوسری جانب باچا خان کے چاہنے والوں کے مطابق یہ بالکل درست اور راسخ فلسفہ تھا۔ ان سطور میں باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد کا ایک الگ زاویہ سے جائزہ لیا جائے گا جو ان کے اپنی خودنوشت سوانح حیات ” میری زندگی اور جدوجہد ” کے مطالعے اور اقتباسات پر مبنی ہے۔

باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد کے بارے میں ان سے وابستہ لوگ، انکی اولادیں اور خود باچا خان یوں توجیح پیش کرتے ہیں کہ عدم تشدد کا فلسفہ پشتونوں کے مابین ذاتی رنجشوں اور دشمنیوں کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش تھی اور پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کی روایت کی اصلاح کرنی تھی تاکہ انکے درمیان مہرومحبت بڑھے۔انجمن اصلاح الافاغنہ اور خدائی خدمتگار تحریک کی کوشش تھی کہ پشتونوں کی سماجی اصلاح کریں، انکی آپس کی دشمنیوں کو ختم کرے اور انکے درمیان رائج فضول رسم و رواج کی بیخ کنی کرے۔ باچا خان کی کوشش تھی کہ پشتونوں میں اس احساس کو پروان چڑھائے کہ وہ تشدد کو ترک کردیں اور اگر کوئی کسی کو ایک تھپڑ مارتا ہے تو وہ بجائے بدلہ لینے کے دوسرا گال تھپڑ مارنے کے لیے پیش کرے۔ باچا خان چاہتے تھے کہ آپس کی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرے، نفاق کو اتفاق میں بدل دے اور پشتون قوم کو متحد اور منظم کرتے ہوئے برصغیر کی آزادی کا ہراول دستہ بنائے۔ فلسفہ عدم تشدد کی دوسری توجیح خود باچا خان یوں کرتے ہیں کہ نہتے، غیر تربیت یافتہ اور جنگی سامان سے محروم پشتون کس طرح سے انگریز کے منظم اور مسلح افواج، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کا مقابلہ کرسکتے تھے؟  ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پشتون بےموت مارے جاتے۔ اس لیئے عدم تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پشتونوں کو آزادی کی جنگ پرامن طریقے سے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی طور پر لڑنے کی ترغیب دی گئی۔عدم تشدد کے حوالے سے باچا خان کے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ پشتونوں کی بقا اس بات میں ہے کہ وہ آزادی کی اس جنگ میں دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرے تاکہ انگریز کی غیض و غضب کے زیادہ شکار نہ ہوں۔ باچا خان نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ صف بندی کی بہت کوششیں کی مگر وہاں سے صاف انکار کے بعد مجبوراً کانگرس سے رجوع کیا اور کانگریس نے خدائی خدمتگار تحریک کو قبول کیا۔ چونکہ گاندھی جی عدم تشدد کے علمبردار تھے لہذا باچا خان کو بھی عدم تشدد کے فلسفے پر مزید کام کرنا پڑا۔

دوسری جانب ہندوستان کے لوگ پشتونوں سے ڈرتے تھے کیونکہ پشتون وطن کے رستے انہیں پشتونوں، مغلوں اور دیگر حملہ آوروں نے ہزار سال تک غلام بنائے رکھا تھا۔ ہندوستان کے لوگوں کے دلوں سے یہ خوف مٹانے کے لیے باچا خان کو عدم تشدد کا فلسفہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنا پڑا۔ خود گاندھی جی بھی قلبی طور پر تشدد کے حق میں تھے اور کانگریس کے دیگر اکابرین جیسے سبھاش چندر بوس، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبیداللہ سندھی سمیت دیوبند کے دیگر علماء اور زعماء بھی تشدد اور جہاد کے حق میں تھے لیکن بوجوہ اسکا عملا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ گاندھی جی نے تو صاف صاف کہا تھا کہ ہندوں میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ پرتشدد کاروائیوں کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کرا سکے اس لئے مجبوراً عدم تشدد کا لبادہ اوڑھنا پڑے گا۔

خان عبدالغفار خان اپنی خود نوشت سوانح عمری “میری زندگی اور جدوجہد” کے صفحہ نمبر54 پر”شیخ الہند صاحب کا مکتوب” کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ “ہم سال میں ایک دو دفعہ دیوبند جاتے تھے اور مولانا محمود الحسن صاحب اور مولانا عبیداللہ سندھی صاحب سے ملاقات کرتے تھے اور اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے تھے کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے کیسے نجات پاسکتے ہیں؟ مجھے جنوری 1914 میں حضرت مولانا شیخ الہند محمود الحسن صاحب کا خط ملا کہ دیو بند آجاؤ،میں مخفی صاحب اور مولوی فضل ربی صاحب کے ہمراہ دیوبند چلا گیا۔ہم سٹیشن سے سیدھے مدرسے پہنچے۔وہاں سے مولانا عزیر گل صاحب ہمیں مولانا محمود الحسن صاحب کے گھر لے گئے۔ہم سی آئی ڈی کے خوف سے باہر پھرنے سے گریز کرتے تھے۔مولانا محمود الحسن صاحب نے دہلی سے مولانا عبیداللہ سندھی کو بھی بلایا تھا۔بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں دو مراکز بنانے چاہئیں۔ایک ہندوستان میں اور دوسرا ہندوستان سے باہر آزاد قبائل میں جہاں کے لوگ انگریزوں کے تنخواہ دار نہ ہوں اور وہ قوم بھی مجاہد ہو۔وہاں ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک فوج تیار کی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مرکز بونیر میں بنایا جائے جہاں ہندوستان کے مجاہدین پہلے ہی قیام پزیر ہیں۔یہ وہ مجاہدین تھے جو سید احمد بریلوی صاحب اور شاہ اسماعیل شہید صاحب کی بالاکوٹ میں شہادت کے بعد زندہ بچ گئے تھے اور ہزارہ سے بونیر چلے گئے تھے اور وہاں “لیستانہ” نامی گاؤں میں مقیم ہوگئے تھے۔تاحال ان کو ہندوستان سے رقم اور آدمیوں کی امداد ملتی تھی مگر ان میں وہ سابقہ جذبہ اور ولولہ باقی نہیں رہا تھا جس کی بنا پر سیداحمد شہید اور اسماعیل شہید سکھوں کے خلاف صف آراء ہوئے تھے۔یہ لوگ اب اتنے بےکار ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے گردونواح کے لوگوں تک کو بھی اپنے حقیقی اغراض و مقاصد سے آگاہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان میں سے کسی کو ہم خیال بنایا تھا۔ایک دن ان لوگوں کے بارے میں میرے ساتھ مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔وہ انکے بارے میں نہایت پرامید تھے۔میں نے کہا یہ لوگ اب بےکار ہیں۔ ہندوستان سے آمدہ رقوم کھا رہے ہیں۔انکا عقیدہ تھا کہ تلوار، نیزہ اور تیر کمان سے لڑنا چاہیئے کیونکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھیوں نے انہی ہتھیاروں سے جنگیں لڑی تھیں اور فتح پائی تھی اور یہ سنت کا طریقہ ہے۔وہ یہ حقیقت تسلیم نہیں کرتے کہ جس وقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے تلوار، نیزہ اور تیر کمان سے جنگ کی تھی تو مدمقابل کفار کے پاس بھی یہی اسلحہ تھا۔آج تو دنیا نے بہت ترقی کی ہے۔ توپ اور بندوق کا زمانہ ہے۔ تلوار، نیزہ اور تیر کمان جدید اسلحہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر ہندوستان کے مسلمان ان حقائق سے بےخبر اور اس گروہ کی ذہنیت سے ناواقف تھے۔عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے لیڈر اور علماء اس حقیقت سے ناواقف تھے۔ ہمیں تو اس گروہ کے تمام حالات معلوم تھے۔ مخفی صاحب ان کے حالات کی تحقیق کے لیئے خود بونیر گئے تھے اور غاروں میں انکے ساتھ کئی راتیں بسر کی تھیں۔ ہم نے دیوبند کے ساتھیوں کو یہ بات سمجھائی کہ نہ تو یہ مجاہدین کام کے لوگ ہیں اور نہ ہی یہ جگہ مرکز کے لیئے مناسب ہے۔”

مزید آگے بڑھنے سے پہلے آئیے صفحہ نمبر 54 کے منقول تحریر پر روشنی ڈالتے ہیں۔

باچا خان کی سیاست کو سمجھنے کے لیے انکی شخصیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ باچا خان ایک سیدھے سادھے اور سچے کھرے پشتون اور عالم باعمل مسلمان تھے۔ ان میں جھوٹ، دھوکہ، فریب، بےایمانی، عہد شکنی اور دوغلا پن نہیں تھا۔ انکے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ باچا خان حد سے زیادہ جمہوری اور مہرو محبت کے قائل انسان تھے۔ ادیان سماوی پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا اور وہ اپنے وقت کے پڑھے لکھے سیاستدان تھے۔ ان کی سیاست اور جدوجہد ذاتی اغراض و مقاصد سے بالاتر تھی اور انکا شعار مخلوق خدا کی بےلوث خدمت تھی۔ انہوں نے ایک پراسائش زندگی بغیر کسی احسان کے جتلاتے ہوئے انسانیت کے لیئے قربان کی تھی۔ باچا خان کے سامنے صرف ایک ہی منزل تھی اور وہ منزل آزادی تھی۔ انگریز سامراج سے آزادی اور متحدہ ہندوستان سے آگے انہوں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا، البتہ پشتون وحدت اور اتفاق و اتحاد ہمیشہ ان کا مقصد رہا تھا۔ باچا خان کا ایمان پشتونولی اور اسلام پر یکساں غیر متزلزل تھا اور انہوں نے علماء کرام کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو تہہ دل سے نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ آزادی کے کاروان میں انہیں شامل بھی کیا ہوا تھا۔ اگر دیوبند کے علماء کا جذبہ آزادی اپنی طاقت اسلامی حریت سے حاصل کر رہا تھا تو باچا کا جذبہ اس بنا پر دو آتشہ تھا کہ اسلامی حریت کے ساتھ ساتھ پشتون وطن کی مٹی کی محبت بھی اس میں شامل تھی۔ ایک طرف اگر اسلامی سوچ کے حامل مخفی صاحب کے کہنے پر وہ آزاد مدارس کے قیام کے لئے کمربستہ ہوئے تھے تو دوسری طرف انہوں نے حاجی صاحب ترنگزئی کو ان آزاد مدارس کا سرپرست اعلیٰ بھی مقرر کیا تھا۔ باچا خان خود حاجی صاحب ترنگزئی کے آزاد مدارس کے لئے انکی سرپرستی کی سیاسی اہمیت پر متعدد مرتبہ رائے دے چکے ہیں۔

دوسری جانب علماء دیوبند سے بھی ان کا تعلق قلبی اور سچا تھا۔ برصغیر کی آزادی کے لئے باچا خان مسلح جدوجہد کے حق میں تھے۔ ان کے مطابق اکابرین دیوبند کے ساتھ اس ضمن میں ان کی یہ پہلی نشست نہیں تھی بلکہ اس موضوع پر متعدد بار بحث و مباحثہ ہوچکا تھا۔ مذکوہ مجلس میں فوجی مقاصد کے لیے عسکری مرکز کے قیام پر رسمی طور پر کام کرنے کا فیصلہ اور آغاز ہوا۔ علماء دیوبند کی طرح باچا خان کی نظریں بھی بریلوی شہداء کے بونیر میں باقی ماندہ مقیم مجاہدین پر تھیں اور وہ بونیر کو بطور مرکز بھی کام میں لانا چاہ رہے تھے اور اس کا جائزہ بھی لیا ہوا تھا۔ اسی مطالعے کے باعث باچا خان نے بونیر کے بریلوی مجاہدین اور مرکز کے بارے میں مدلل اور دوٹوک رائے دی اور مجلس میں شریک تمام اکابرین بھی انکی رائے سے بالآخر متفق ہوگئے۔ اس اتفاق کے بعد ہی انہوں نے آزاد قبائل کے علاقے میں باچا خان کو مرکز کے قیام کے لیئے جگہ ڈھونڈنے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔

یہ امر انتہائی قابل توجہ ہے کہ علماء دیوبند کے اذہان میں اس تصور کے آنے سے بہت پہلے ہی باچا خان نے انگریز سے برصغیر کا قبضہ چھڑانے کے لیے مسلح اور پرتشدد جدوجہد کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں انہوں نے مخفی صاحب کو ان مجاہدین کے پاس بھیجا تھا جہاں انہوں نے ان کے ساتھ غاروں میں کئی راتیں گزاری۔ مخفی صاحب نے واپسی پر باچا خان کو اپنی رائے سے آگاہ کیا تھا اور باچا خان کے ذہن میں محفوظ عسکری مرکز کے قیام کے لئے افغانستان اور آزاد پشتون قبائلی علاقے تھے۔ فوجی مرکز کے تصور پر چونکہ باچا خان نے بہت پہلے سے اپنا کام کیا ہوا تھا اس لئے مذکوہ مجلس جلد ان کے مشوروں کی روشنی میں ایک حتمی نتیجے پر پہنچ گئی۔ اس تناظر میں باچا خان واضح طور پر ایک پشتون قوم پرست جہادی نظر آتے ہیں جس پر آنے والے سطور میں مزید روشنی ڈالی جائیگی۔ ان حقائق اور دلائل کے نتیجے میں باچا خان کا عدم تشدد کا فلسفہ اور پالیسی اس وقت تک محض ایک سیاسی حربہ لگتا ہے اگر چہ بعد ازاں بدلتے ہوئے حالات میں عدم تشدد انکا عقیدہ بنتا ہے جسکا جائزہ آنے والے اقساط میں لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

نوٹ: مضمون نگار کے دلائل اور موقف سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایڈیٹر

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp