اے وسیم خٹک
ایران نے 22 جون 2025 کو قطر میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغ کر ایک ایسا قدم اٹھایا جو نہ صرف خطے میں کشیدگی کو نئی سطح پر لے گیا بلکہ خود ایران کے لیے بھی ایک اسٹریٹجک نقصان بن کر سامنے آیا۔ حملے کی نوعیت علامتی تھی لیکن اس کے اثرات عالمی سفارت کاری، خلیجی ممالک کے مؤقف، اور ایران کی اپنی اندرونی سیاست پر گہرے پڑے۔
ایران برسوں سے فلسطین، لبنان، شام، یمن اور عراق جیسے تنازعات میں ایک مزاحمتی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے، لیکن حالیہ حملہ جس وقت کیا گیا وہ نہایت نازک اور غلط وقت تھا۔ جب امریکی بیسز خالی ہو چکی تھیں، تو ایسے وقت میں حملہ صرف عوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ایک ’پری پلانڈ‘ سیاسی مظاہرہ دکھائی تھا۔ اس حملے کے بعد ایران کی سفارتی تنہائی مزید گہری ہو گئی اور خطے کے ممالک میں اس کے لیے پائی جانے والی ہمدردی ختم ہوگئی۔
اس جنگی مرحلے کے فوراً بعد یہ واضح ہو گیا کہ کوئی بھی ملک، خاص طور پر خلیجی ریاستیں، ایران کی پشت پر کھڑے نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے بھی اپنا محدود ہدف حاصل کر لیا۔نہ رجیم چینج ہوا، نہ بڑی تباہی، لیکن ایران کو پیچھے دھکیلنے میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی عسکری برتری پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔ نہ صرف ایران نے مسلسل حملے جاری رکھے بلکہ اسرائیلی دفاعی نظام بھی کئی مواقع پر ناکام ثابت ہوا۔ اس جنگ کا سب سے بڑا نفسیاتی اثر یہی ہے کہ اسرائیلی سرزمین اب ناقابلِ تسخیر نہیں رہی۔
تیسری عالمی جنگ کے خدشے پر عالمی میڈیا نے جو شور مچایا تھا، وہ وقتی ثابت ہوا۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے یہ جنگ اتنی آسان نہ رہی جتنی سوچا گیا تھا، جبکہ ایران کے لیے یہ ایک وقتی سیاسی تقویت ضرور بنی، لیکن عسکری کمزوری اور جاسوسی نیٹ ورکس کی موجودگی نے ایران کی داخلی سلامتی کو ایک نیا چیلنج بنا دیا ہے۔
اس پورے تناظر میں ایک ملک ایسا رہا جس نے جنگ میں حصہ لیے بغیر سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔اور وہ ہے پاکستان۔ ایران کا پاکستان کے خلاف برسوں سے موجود نیٹ ورک، خاص طور پر بلوچستان میں دہشتگردی کے لیے فراہم کردہ سہولتیں، اس جنگ میں خود ایران کے خلاف استعمال ہو گئیں۔ ایران اب اس نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کرنے پر مجبور ہے تاکہ آئندہ کوئی ملک اس کی سرزمین کو اس کے خلاف استعمال نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لیے یہ جنگ خاموش سفارتی اور دفاعی فتح ثابت ہوئی۔
اب جبکہ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے، فریقین نے فتح کے اپنے اپنے دعوے کر دیے ہیں، خطہ ایک بار پھر عارضی سکون کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب جنگ و جدل سے ہٹ کر انسانی ترقی، داخلی اصلاحات، معیشت کی بحالی، اور عوامی فلاح کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت نہ صرف ایران بلکہ تمام خلیجی، مسلم اور عالمی طاقتوں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ہر کچھ عرصے بعد صرف اسلحے، تباہی اور خونریزی سے دنیا کو طاقت کا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ یا پھر ہم ایک ایسی دنیا کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں جہاں امن، ترقی، انصاف اور وقار کی سیاست ہو؟
یہ وقت ہے عقل سے کام لینے کا، اپنے عوام کی بہتری پر توجہ دینے کا، نوجوان نسل کو تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کا۔ جنگ کے لیے دنیا ہمیشہ تیار رہے گی، لیکن اگر ہم دنیا کو رہنے کے قابل جگہ بنانا چاہتے ہیں تو اب کام شروع کرنا ہوگا۔
چلیے، جنگ ختم ہوئی۔ اب واپس اپنے کام پر لوٹیں۔
اگلی جنگ میں کون جیتے گا، اس پر بحث بعد میں ہوگی۔
فی الحال عوام کو جینے کا حق دیجیے۔
امن کی راہ اپنائیے۔
کیونکہ ہم کہیں اور، کسی اور موقع پر، پھر ایک نئی جنگ کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ تب تک دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔