عقیل یوسفزئی
امریکی کانگریس کے مزید 50 کے لگ بھگ ارکان نے اپنے صدر کو ایک اور خط لکھتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اپنا کردار اور اثر رسوخ استعمال کریں جس کے بعد اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ سابق وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ یہودی لابی کی آشیرباد اور معاونت حاصل ہے بلکہ یہ لابی موصوف کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ان کی ذات اور پارٹی کو بطور ایک پراکسی استعمال کرتی آرہی ہے۔ حالیہ خط سے قبل بھی یہی مطالبہ ایک اور خط میں بھی کیا گیا تھا یوں اب تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے خط لکھنے والے ارکان کانگریس کی تعداد تقریباً 100 ہوگئی ہے ۔ مبینہ لابی کی دلچسپی اور پلاننگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مطالبہ کرنے والوں میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن دونوں کے کانگریس مین شامل ہیں ۔ یہ “سازشی پیشرفت” اس وقت دوسری بار سامنے آئی جب پارٹی نے اندرونی اختلافات کے باوجود 24 نومبر کو ایک “فائنل کال” کا اعلان کر رکھا ہے اور اس تمام ایونٹ کو پارٹی قائدین کی بجائے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ہمشیرہ علیمہ خان لیڈ کررہی ہیں اور بشریٰ بی بی نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں سینکڑوں پارٹی عہدیداران اور ارکان اسمبلی سے “خطاب” بھی کیا ہے۔
دوسری جانب اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ ایک اور خاتون یعنی موصوف کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان بھی اپنی لابی کے ساتھ لندن اور واشنگٹن میں بہت فعال ہوگئی ہے اور اس تمام تر مہم پر بہت بڑی انویسٹمنٹ کی جارہی ہے۔
اگر چہ ممتاز برطانوی اخبار “دی گارڈین” نے گزشتہ روز کی اپنی اشاعت میں پاکستان کے عسکری ذرائع کے حوالے سے صاف طور پر لکھا ہے کہ پاکستانی فوج عمران خان کی خواہش اور کوشش کے باوجود ان سے کوئی مذاکرات نہیں کررہی اور نہ کرے گی مگر اس کے باوجود اس پارٹی کی کوشش ہے کہ کروڑوں ڈالرز کی لابنگ کے علاوہ اس قسم کے خطوط اور بیانات کے ذریعے پاکستان کی ریاست پر دباؤ ڈالا جائے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں یہودی لابی سمیت اس امریکہ کے ذریعے مداخلت کی جائے جس کے بارے میں متعدد معتبر سیاست دان، علماء اور تجزیہ کار یہ کہتے آرہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی پارٹی کی “لانچنگ” اس لابی کی ایک باقاعدہ پلاننگ کا حصہ اور نتیجہ ہیں۔
ممتاز تجزیہ کار گزشتہ کئی ہفتوں سے آن دی ریکارڈ یہ کہتے آرہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور مذکورہ لابی نے پاکستان پر موصوف کی رہائی کے لیے نہ صرف کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے اور مختلف فرمز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں بلکہ 24 نومبر کی احتجاجی کال بھی پریشر ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ تاہم ان تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست اس قسم کی کوششوں اور سرمایہ کاری کے باوجود کسی قسم کے دباؤ میں آنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
اس تمام تر لابنگ اور انویسٹمنٹ کو “آپریشن گولڈ سمتھ” کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اس پراجیکٹ کے تانے بانے پوری طرح معلوم ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان واقعتاً ایک پاکستان میڈ پاپولر لیڈر ہیں تو ان کی رہائی کے لیے پاکستانی عدالتوں کی بجائے عالمی پولیٹیکل پراکسیز سے رجوع کیوں کیا جارہا ہے اور یہ کہ اس پارٹی کا وہ بیانیہ کہاں گیا جس میں یہ ایک “خط” لہرا لہرا کر عوام کو کہتے رہے کہ ان کی حکومت ایک امریکی سازش کے تحت ختم کی گئی تھی؟
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم اور ان کی پارٹی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پلاننگ برسوں قبل کی گئی تھی اور جب اس پلاننگ کو ناکام بنانے کیلئے ایک جمہوری اور پارلیمانی نظام، طریقہ کار کے تحت ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا تو عالمی انویسٹرز کے مفادات کو دھچکا لگ گیا اور اس کے ردعمل میں نہ صرف امریکی اور برطانوی مشینری حرکت میں آگئی بلکہ اسرائیل کے میڈیا نے کھلم کھلا سابق وزیر اعظم کو اپنے لئے “فائدہ مند” قرار دیتے ہوئے ان کے حق میں پوری ایک میڈیا کمپین چلائی اور کانگریس مین کی مذکورہ سرگرمیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان کے ایک لیڈر کی گرفتاری اور رہائی جیسے اندرونی معاملے میں اتنی دلچسپی لینے کی ضرورت بظاہر سمجھ سے بالاتر ہی ہے۔
اس تمام صورتحال کو محض سیاسی یا انسانی حقوق کا معاملہ قطعاً نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ “آپریشن گولڈ سمتھ” اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔