روخان یوسف زئی
پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ”گل د کدو گل دے چہ یو پورتہ کوم ترے لاندے بل دے” یعنی یہ کدو کا پھول ہے ایک اٹھا کر دیکھتا ہوں تو اس کے نیچے دوسرا پھول پڑا رہتا ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کدو کے ایک پھول کو توڑتا ہوں تو اس کے نیچے دوسرا نظر آجاتا ہے اور یہ کہاوت آج کل ہمارے وطن عزیز پاکستان کے موجودہ حالات پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ پاکستان آج کثیر الجہتی بحرانوں اور مسائل کے گرداب میں ڈوبکیاں مار رہا ہے۔ ہر بحران یا مسئلہ اپنے اندر نئی نئی پیچیدگیاں رکھتا ہے۔گزشتہ کئی عشروں سے نت نئے بحران پیدا ہوئے اور اب بھی پاکستان طرح طرح کے بحرانوں کا سامنا کررہا ہے۔ان بحرانوں میں سیاسی عدم استحکام، معیشت کی زبوں حالی،امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال،آئے روز مہنگائی میں اضافہ، بے روزگاری،سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی،کرپشن،لاقانونیت،آئینی بحران، سیاسی دھرنے،جلسے، جلوس، فرقہ واریت اور اس کے ساتھ سب سے بڑا خطرناک بلکہ قتل ناک دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہونا شامل ہے۔سیاسی ومعاشی بحران کی شدت میں تو پھر بھی آہستہ آہستہ کمی نظر آرہی ہے اور ملک میں نظام حکومت چلتا اور بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کی معیشت بھی بہتری اور ترقی کی جانب قدم اٹھارہی ہے۔دوسری جانب یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ عالمی ادارے بھی موجودہ مرکزی حکومت کی معاشی اصلاحات کا خیرمقدم کررہے ہیں اوراسے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔مگر جہاں تک ملک میں شدت پسندی،تنگ نظری،فرقہ واریت اور انہی چشموں سے پھوٹنے والا دہشت گردی کا جو ناسور ہے اس پر تاحال مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔یہ ناسور اب بھی ایک بے قابو خونخوار جانور کی طرح کسی نہ کسی جگہ پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس کے کئی اندرونی اور بیرونی وجوہات بھی ہیں۔
جہاں تک وطن عزیز میں ان جان لیوا امراض کا تعلق ہے تو غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دیگر فتنوں اور فساد سمیت دہشت گردی کی یہ وارداتیں خیبرپختونخوا میں ہوئی بھی اور اب بھی ہورہی ہیں کیونکہ جس راستے سے یہ فتنہ خوارج وارد ہوتے ہیں اور اپنی وارداتوں میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، اس راستے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ہم تاحال کامیاب نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ تمام تر اقدامات کے باجود پاک افغان سرحد آج بھی پوری طرح محفوط نہیں بنائی جاسکی ہے۔
افغانستان سے پاکستان کی طرف آمد و رفت اب بھی جاری ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان نے افغانستان کے باشندوں کو واپس بجھوانے کا جو عمل شروع کیا تھا وہ عمل اگر سست روی کا شکار ہوتا پھر بھی کہا جاسکتا تھا کہ چلیں جاری تو ہے مگر متاسفانہ وہ عمل آج کل رُکا ہوا نظر آرہا ہے۔اس کے علاوہ عوام کو اس اعداد و شمار کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے کہ جولوگ پاکستان سے واپس افغانستان بجھوائے جاچکے ہیں ان میں سے اگر کچھ لوگ دوبارہ واپس آئے ہیں تو اس حوالے سے بھی عوام بے خبرہیں۔ نہ ہی ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں اور نہ ہی ہماری پارلیمان نے اس حساس معاملے پر کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان کے نظام کی یہ سب سے بڑی کمزوری ہے کہ پاک افغان سرحد جب تک مکمل محفوظ نہیں بنائی جاتی اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران بھی اب افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے سے قاصر نظر آرہا ہے۔ہمیں ایران کی حکومت سے بھی سیکھنا چاہیئے کہ اس نے افغانستان کے شہریوں کو واپس بجھوانے کے لیے ٹھوس اور انتہائی سخت پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔اس کے برعکس پاکستان نے اس حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اس میں سست روی،غیرسنجیدگی،تجاہل عارفانہ اور لچک دکھائی دے رہا ہے۔پاکستان میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں اور ملکی قوانین میں ایسی کمزرویاں بھی موجود ہیں جو پاکستان کے باشندوں کے بجائے غیرملکیوں کو زیادہ ترجیح اور تحفظ فراہم کررہی ہیں۔پاکستان میں اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دہشت گردی کا آسانی سے سہولت کار بن جاتے ہیں۔اسی طرح پاکستان میں ایسے طاقتور گروہ بھی موجود ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے غیرملکی ڈرگ ڈیلرز،ہنڈی حوالہ کا کام کرنے والوں اور انڈرورلڈ مافیا کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔دہشت گردوں کو بھی انہی لوگوں سے سہولت کاری ملتی ہے۔یوں پاکستان میں دہشت گاری کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے دہشت گرد پاکستان کی سیکورٹی فورسز سمیت عوام کو کھلے عام نشانہ بنارہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں مکمل ناکام ہے۔
چین،روس اور بھارت اپنے مفادات کے لئے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ کہ افغانستان کے موجودہ حکمران اپنے وطن کے قدرتی وسائل اور ذخائر کو انتہائی اونے پونے داموں فروخت کررہے ہیں۔طالبان حکومت کے فیصلوں کو کہیں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی طالبان لیڈر کے خلاف کوئی مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت اپنے اختیارات سے کھلے عام تجاوز کررہی ہے۔ طاقتور اقوام کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کھرب پتی تاجر افغانستان کے وسائل کو کوڑیوں کے دام لوٹ رہے ہیں۔لہذا پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنی سفارت کاری بیانات اور کتابی اصولوں کے مطابق چلنے کی بجائے وقت اور حالات کی ضروریات اورتقاضوں کو سامنے رکھ کر ڈپلومیسی ہتھیار استعمال کرنا چاہیئے۔