سرحدوں کو کھلا نہیں رکھا جاسکتا ، کیا تاجک افغان ،ازبک افغان ،ترکمان افغان اور ایران افغان سرحد کھلی رہی ہے ؟
افغان حکمرانوں نے بقائمی ہوس و حواس معاہدہ کرکے ڈیورنڈ لائن کو قانونی سرحد تسلیم کیاتھا
دنیا نے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے کی افغان کوششوں کی کبھی حمایت نہیں کی
تحریر : آصف نثار غیاثی
دنیا میں بہت سے ممالک لسانی بنیادوں پرقائم اورتقسیم ہیں ان میں سرفہرست عرب ممالک ہیں جن کی مجموعی آبادی 36کروڑ سے زائد بنتی ہے ان کی زبان وثقافت کے ساتھ ساتھ عقیدہ ودین بھی ایک ہے مگر پھر بھی یہ 22ممالک میں تقسیم ہیں اور بعض تو ایک دوسرے کے خلاف نبر د آزما بھی رہے ہیں جس میں عراق وکویت کاتنازعہ اہم ترین قراردیاجاسکتاہے۔ یہ تمام ممالک باہمی پڑوسی ہیں اور سرحدی چوکیاں قائم کرکے سرحدوں کی مئوثر نگرانی کامربوط نظام قائم کررکھاہے بغیر ویزے اورپاسپورٹ کے آمدورفت کاتصور بھی محال ہے وسطی ایشیائی ممالک کی بات کریں تو بنیادی طور پر تمام ترک اورترکمان النسل ہیں پھر ایک طویل مدت تک یو ایس ایس آر کاحصہ رہے ہیں مگر آج بھی کوئی تصور نہیں کرسکتاکہ باہمی ویزے یاپاسپورٹ کانظام ختم کرکے ایک دوسرے کے لیے سرحدیں کھلی چھوڑ دیں گے ۔مگر ہمارے ہاں کچھ اورہی معاملہ چل رہاہے ایک عرصہ تک افغانستان اور پاکستان کے موجودہ علاقے مغل سلطنت کاحصہ رہے ہیں مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں پشاور کے دیگر پختون آبادی پر مشتمل علاقے افغان حکومت کاحصہ بن گئے۔ تاہم پھر رنجیت سنگھ نے پشاور اور آس پاس کے علاقے فتح کرکے افغان حکومت کے بجائے ان کو سکھ سلطنت کاحصہ بنادیا ۔پھر جب انگریزں نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا تو زار روس کے توسیع پسندانہ حکمت عملی سے خائف ہوکر انہوں نے افغانستان میں مہم جوئی کاایک سلسلہ شروع کردیا۔تاہم جب یہ مہم جوئی کامیاب نہ ہوسکی تو 1893میں انگریزوں نے مذاکرات کے ذریعہ افغانستان اورہندوستان کے درمیان حد بندی کافیصلہ کیاجسکے بعد برطانوی ہناد سرکار کی طرف سے مارٹیمر ڈیورنڈ اورافغانستان کی طرف سے امیرعبدالرحمن خان نے 1893میں معاہدہ پر دستخظ کردیئے جس کے تحت اگلے سال دونوں ممالک کے درمیان حد بندی کا کام شروع ہوا۔یہ کام دو سال تک جاری رہااور آخر کار 2640کلومیٹر طویل سرحد کی نشاندہی مکمل ہوگئی اوریہ سرحد بعدازاں ڈیورنڈ لائن کہلائی ۔
حیرت ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اس کے ایک تیسرے درجہ کے افسر جبکہ افغانستان کی طرف سے اس کے حکمران نے دستخط کیے تھے ۔اسی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ افغان حکمران برطانیہ سے کس قدر خائف یا مرعوب تھے۔ اس سرحد کی بدولت گریٹ گیم کے دوران افغانستان نے روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان بفر زون کاکردار ادا کیابعدازاں 18اگست 1019کو راولپنڈی میں اینگلو افغان ٹریٹی پر دستخط ہوئے جس کے تحت ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا گیا ۔یوں افغان حکمرانوں نے بقائمی ہوش وحواس پشاور اور پاکستان کے موجودہ پختون علاقوں کے عوام کو انگریز سرکار کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا مگراس کے بعد جب پاکستان قائم ہوا تو افغان حکمرانوں کے رویے میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ انگریز وں کی موجودگی تک وہ بھیگی بلی بنے رہے ۔
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد مذکورہ بالا دونوں معاہدے وراثت کے طور پر پاکستان کے حصہ میں آئے ۔پاکستان نے روز اول سے ان معاہدوں کے احترام کی پالیسی اختیار کی تاہم افغان حکمرانوں نے ان معاہدوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی حکمت عملی اپنالی تھی۔ جس نے بعدازاں آگے جاکر کشیدگی کی ایسی بنیاد رکھی جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکار کردیا حالانکہ جیسا کہ بتایاگیاہے کہ انگریزوں کی موجودگی تک وہ اس کی جرات نہیں کرسکے تھے ۔شاید نئی مملکت کو کمزور سمجھ کر افغان حکمرانوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ وہ اس طرح پاکستان کو دباؤمیں لاسکیں گے ۔
قیام پاکستان کے محض دوسال بعد یعنی 26جولائی 1949ء کو جبکہ دونوںممالک کے تعلقات انتہائی سرد مہر ی کاشکارتھے افغانستان میں ایک لویہ جرگہ منعقد ہوااس کے ذریعے افغان حکمرانوں نے اپنے سابقہ مئوقف کی مکمل نفی کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو پاک افغان سرحد ماننے سے انکار کرتے ہوئے اس حوالہ سے ماضی کے تمام معاہدوں کو غیرقانونی قراردے دیاافغان حکومت نے اسے لسانی تقسیم کی لکیر قرار دیتے ہوئے مئوقف اختیارکیاکہ یہ لکیر دباؤ کے تحت کھینچی گئی تھی۔ تاہم دنیا نے افغانستان کے اس مؤقف سے کبھی اتفاق نہیں کیا۔
30 جون 1950ء کو برطانوی پارلیمان نے اس حوالہ سے واضح طور پر کہاکہ ڈیورنڈ لائن ایک عالمی سرحد ہے اورپاکستان ان تمام علاقوں کاقانونی وارث ہے جو شمال مغرب میں برطانوی ہندکاحصہ تھے ۔اس طرح 8مارچ 1956ء کو سیٹو نے بھی پاکستانی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کراچی میں اپنے اجلاس میں کہاکہ ان کی حکومتیں ڈیورنڈ کے اس پار تمام علاقوں پر پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتی ہیں اور قراردیتی ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان عالمی سرحد ہے۔ واضح رہے کہ سیٹو میں امریکا،برطانیہ ،فرانس کے ساتھ ساتھ پاکستان ،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ ،فلپائن اور تھائی لینڈ شامل تھے۔
یوں آغاز میں ہی دنیا نے افغانستان کے مؤقف کو مسترد کردیاتھامگرافغان حکمرانوں کامعاندانہ رویہ جاری رہا۔پہلی پاک افغان سرحدی جھڑپ 1949ء میں ہوئی جو وقتا فوقتا جاری رہیں۔حالیہ سرحدی جھڑپوں کی ابتداء 2003ء کے وسط میں ہوئی تھی جب افغانستان نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان نے نورستان اورکونڑ کے علاقوں میں میزائل حملے کیے ہیں جن سے شہری آبادی کو نقصان پہنچاہے ،تاہم پاکستان نے اس کی واضح تردید کی مگراس کے باوجود حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار حکومت میں افغانستان سے دراندازی کاسلسلہ جاری رہا۔ امید تھی کہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد دراندازوں کو قابو کیاجائے گا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اوریہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں آج تک جاری ہے جس کی کی وجہ سے پاکستان کو مجبورا ًسخت اقدامات کاراستہ اختیار کرناپڑرہاہے۔
بہت سے قوم پرست حلقے اس امر پر اصرار کررہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں کھلی رکھی جائیں تاکہ بلا روک ٹوک آمدورفت کاسلسلہ جاری رہے ۔سوال یہ ہے کہ افغان کے شمالی علاقے جہاں ترکمان ازبک اور تاجک وغیرہ بستے ہیں ،کیا انہوں نے بھی کبھی یہ مطالبہ کیاہے کہ ان کی سرحدوں کو کھلا رکھا جائے؟ کیا وہاں ویزا اورپاسپورٹ سسٹم نہیں ہے کیا ایران کے ساتھ افغان سرحد کبھی کھلی رہی ہے؟ پاکستان نے تو پھر بھی بہت صبر سے کام لیاہے ،اب جبکہ بارڈر مینجمنٹ پر عملدرآمد کاسلسلہ شروع ہوچکاہے اور باہمی آمدورفت کو کنٹرول کیاجارہاہے تو اس اقدام کی حمایت کی جانی چاہئے اوریہ اقدام دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے بنیاد ی اہمیت کاحامل ہے ،اس لیے نہ تو طورخم اورنہ ہی چمن کو کھلا رکھا جاسکتاہے۔
یہ امربھی خوش آئند ہے کہ چمن کے ہزاروں رہائشیوں نے حقیقت کا ادرا ک کرتے ہوئے اب قانونی دستاویزات کے حصول کاسلسلہ شروع کردیاہے۔ پاکستان اور افغانستان کاامن ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہواہے ۔دونوں ممالک نے بدترین حالات کاسامنا کیاہے دونو ں اقوام نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنی اپنی قومی سلامتی کے نظام کو فول پروف بناکر معیشت کے استحکام کے لیے کوششیں تیز کردیں تاکہ خطے میں خوشحالی اور آسودگی کی نئی لہر کاآغاز ہوسکے۔