تحریر: خالد خان
تاریخی طور پر افغانستان اس خطے کے لیے مسلسل ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے اور تب تک رہے گا جب تک ہم تاریخی اور زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے۔ افغانستان کے قیام سے لے کر آج تک دو بنیادی مسائل درپیش رہے ہیں:
پہلا یہ کہ افغانستان کو غیر فطری طور پر ایک قوم کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک کبھی بھی ایک مذہب، ایک قوم، ایک مسلک یا مشترکہ تاریخ کا امین نہیں رہا۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ افغانستان کبھی بھی مجموعی طور پر کسی ایک حاکم کے زیر تسلط نہیں رہا بلکہ صرف کابل پر قبضے کو افغانستان پر فتح سمجھا جاتا رہا ہے۔ خصوصاً کابل سے دور پشتون آبادی کے اکثریتی علاقے ہر دور میں کابل کے ماتحت ہونے کے باوجود جداگانہ اور آزاد حیثیت برقرار رکھتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں کبھی بھی مستحکم حاکمیت قائم نہیں ہو سکی۔ مرکزی حکومت کے باوجود عالمی اور علاقائی قوتوں کا اثر و رسوخ برقرار رہا ہے۔
افغانستان کے پشتون عوام نے ہمیشہ کسی نہ کسی کے لیے “اجرتی سپاہی” کا کردار ادا کیا ہے جبکہ غیر پشتون آبادی مسلک، تاریخ، ورثے اور بقا کے نام پر وسطی ایشیائی اور مغربی طاقتوں کے آلہ کار بنی رہی ہے۔ افغانستان میں نہ تو کبھی کسی قومی تحریک نے جنم لیا اور نہ ہی جمہوریت کا تصور پروان چڑھ سکا۔ اس ملک نے کوئی ایسا عظیم رہنما بھی پیدا نہیں کیا جس نے عوام کی ذہن سازی کی ہو۔ افغانستان کی معیشت تاریخی طور پر جنگوں کی مرہون منت رہی ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کی سب سے بڑی بدقسمتی بھی افغانستان سے وابستہ رہی ہے، جہاں سے پرامن اور مہذب ہندی معاشرے پر بار بار یلغاریں ہوئیں۔ ان حملوں کو آج بھی مذہبی اور قومی توجیحات فراہم کی جاتی ہیں، جو تاریخی اور زمینی حقائق کو مزید مبہم کرتی ہیں۔ یہی غلطی آج بھی افغانستان کے حوالے سے دہرائی جا رہی ہے، چاہے وہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ ہو یا پاکستانی ادارے، جنہیں افغان معاملات کا نبض شناس سمجھا جاتا ہے۔ مسلسل افغان پالیسیوں میں غلطیوں کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔ البتہ بھارت کے حوالے سے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی افغان پالیسی ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔ بھارت نے اپنے قومی مفادات میں وہ اہداف حاصل کیے جن کا اس کی اسٹیبلشمنٹ نے خواب دیکھا تھا۔ بھارت کی افغان پالیسی کثیرالجہتی مقاصد پر مشتمل ہے۔ اس کے بنیادی اہداف میں پاکستان کی مغربی سرحد کو شورش زدہ رکھنا شامل ہے تاکہ پاکستان کی فوجی، مالی اور انسانی وسائل مغربی سرحد پر مصروف رہیں اور مشرقی سرحد اور مقبوضہ کشمیر میں امن و سکون قائم رہے۔ اس حکمت عملی کے تحت پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں اور معاشی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں تاکہ سیاسی ناہمواری کو برقرار رکھا جا سکے۔
بھارت چین کے گرم پانیوں تک رسائی کو روکنے، روس کو ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت پر مجبور کرنے، اور پاکستان کو اندرونی طور پر تقسیم رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان میں قوم پرست، جمہوریت نواز اور آزاد لبرل آوازوں کو ہوا دی جا رہی ہے تاکہ سیاسی ناہمواری کو مزید بڑھایا جا سکے۔ پاکستان میں مسلکی تقسیم اور سیاست کی وجہ سے بھارت سمیت دیگر مخالف قوتوں نے بڑی سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کو مخالف سمتوں میں کھڑا کر دیا ہے۔ سرحدی دراندازیاں مزید کشیدگی کو ہوا دے رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے بہتر تعلقات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطے اور عالمی امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ بھارت افغانستان سے ہزار سالہ غلامی کا انتقام لے رہا ہے، جسے افغان حکومتیں اور منتشر غیر سیاسی اقوام یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں یا ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا المیہ یہ ہے کہ وہ آزاد آوازوں کو مخالف سمجھتی ہے اور انہیں خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہے۔
پاکستان نے ایک طویل عرصے تک یہ مؤقف اپنایا کہ طالبان کی پشتون حکومت پاکستان کے مفاد میں ہوگی کیونکہ یہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان مخالف قوتوں کے لیے غیر مؤثر بنا دے گی۔ تاہم، اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ اسلام جہاں قومیت کی نفی کرتا ہے، وہیں “امت مسلمہ” کا تصور پیش کرتا ہے۔ موجودہ دور میں “مسلم امہ” کا خواب ایک دیوانے کی سوچ کے سوا کچھ نہیں اور یہ آزاد مسلم ریاستوں کی نفی بھی کرتا ہے۔ بھارت کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ افغانستان کو غیر مستحکم رکھا جائے تاکہ وہ کبھی بھی “خراسانی لشکر” کی قیادت کرتے ہوئے دہلی کے لال قلعے پر اسلام کا پرچم نہ لہرا سکے۔ بھارت نے اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں جبکہ پاکستان کو اپنی افغان پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عالمی قوتیں کبھی بھی افغانستان میں جمہوری یا مستحکم حکومت کو پنپنے نہیں دیں گی۔ مغرب، امریکہ کی قیادت میں، وسطی ایشیا، روس اور چین کو اقتصادی رسائی دینے کے بجائے افغانستان کو مختلف اسلامی تنظیموں اور جہادی گروہوں کے ذریعے غیر مستحکم رکھے گا۔
افغانستان پاکستان کے ساتھ براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن طالبان پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں کو بنیادی تعاون فراہم کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے دراندازی کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں، تربیت، مالی وسائل، جدید ہتھیار اور نظریاتی رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کے ساتھ ان مسائل کو اٹھایا، مگر طالبان نے ہمیشہ ثبوتوں کو مسترد کیا۔
حالیہ کارروائیوں میں پاکستان نے دہشت گردوں کے تین اہم مراکز کو نشانہ بنایا، جن میں خودکش حملہ آور تیار کرنے کا مرکز اور “عمر میڈیا سروسز” شامل تھے۔ کارروائی کے دوران پانچ درجن سے زیادہ جنگجو مارے گئے، جبکہ عام آبادی کو نقصان سے بچایا گیا۔ طالبان نے اس حملے کو مہاجرین کے کیمپوں پر حملہ قرار دے کر پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ پروپیگنڈے کے ذریعے معصوم بچوں کی تصاویر اور افسانے مشتہر کیے گئے تاکہ پاکستان کی کارروائی کو ظالمانہ ثابت کیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان مراکز میں دہشت گرد اپنے خاندانوں سمیت مقیم تھے، اور اگر وہاں اموات ہوئیں تو یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان کو اب مزید معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے دوٹوک مؤقف اپنانا ہوگا۔ طالبان اس وقت عالمی سطح پر تنہا ہیں اور پاکستان کی حمایت کے بغیر تسلیم کیے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان کو افغانستان کو ایک پڑوسی ملک کی طرح ڈیل کرنا ہوگا اور اس لاڈ کو لگام دینی ہوگی۔ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر مسلمہ حیثیت دے کر سازشوں کو دفن کرنا ہوگا۔ تعلقات کو طالبان کے طرزِ عمل سے مشروط کرنا چاہیے اور قومی مفادات، آزادی اور سالمیت کے لیے ہر حد تک جانا ہوگا، چاہے اس کے لیے سیاسی تبدیلیاں ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔
(27دسمبر 2024ء)