تحریر : فہمیدہ یوسفی
جنوبی وزیرستان میں حالیہ دنوں سکیورٹی فورسز کی جانب سے فتنہ الخوارج کے خلاف جاری آپریشنز ایک بار پھر اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے۔ تاہم، یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے اس مشترکہ خطرے کے خلاف سنجیدہ اقدامات کا فقدان، پاکستان کی سلامتی اور خطے میں استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
سراروغہ میں حالیہ آپریشن کے دوران 13 دہشت گردوں کی ہلاکت، اور اس سے قبل اسی علاقے میں ایک چیک پوسٹ پر حملے میں 16 اہلکاروں کی شہادت، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف تیز ہوتی یہ کارروائیاں سرحد پار سے ہونے والی دراندازی اور پاکستان میں ان کے بڑھتے حملوں کے ردعمل میں کی جا رہی ہیں۔ پاک فوج نے خیبر کے علاقے راجگال میں بھی دراندازی کی کوشش کو ناکام بنایا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں کی کمین گاہیں افغانستان کے اندر موجود ہیں۔
2015 کے بعد سے، رواں سال کو سب سے خونریز سال قرار دیا جا رہا ہے، جس میں سینکڑوں شہری اور سکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا، جو اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے، ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں کہ فتنہ الخوارج کی کمین گاہیں افغانستان میں ہیں، اور افغان حکومت کی جانب سے ان دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنا دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے کوششیں کی ہیں، مگر افغان حکام کی بے عملی اور دہشت گرد عناصر کی سہولت کاری نے پاکستان کو سرحد پار کارروائیوں کے اصولی حق کے استعمال پر مجبور کر دیا ہے۔
مارچ میں پاکستانی طیاروں کی جانب سے پکتیکا اور خوست میں کارروائی اور وزیر دفاع کے سخت بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور داخلی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ افغان عبوری حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گرد عناصر کی حمایت یا چشم پوشی نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
افغان طالبان کی قیادت کو اس معاملے میں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے خدشات کو نظرانداز کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی، کیونکہ ایک مستحکم افغانستان ہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت دے سکتا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون ہی دہشت گردی جیسے مشترکہ دشمن کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
خطے کے استحکام اور عوام کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان مل کر دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کریں۔ بصورت دیگر، تاریخ ہمیں یاد دلائے گی کہ ایک موقع پر دنیا نے ایک ایسے خطرے کو نظرانداز کیا جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔