ايڈیٹوریل
پاکستان ایئر فورس نے منگل کی شام وزیر ستان سے متصل افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں کارروائیاں کرتے ہوئے چار اہم ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) کمانڈرز سمیت درجنوں دیگر کو ہلاک کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تین سے چار مختلف مقامات پر موجود ایسے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں نہ صرف یہ کالعدم ٹی ٹی پی کے حملہ آور رہائش پذیر تھے بلکہ ایک خودکش یونٹ بھی موجود تھا جہاں خودکش بمباروں کو تربیت دی جاتی تھی۔ انٹلیجنس بیسڈ فضائی آپریشنز کے دوران جن اہم کمانڈروں کو نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کردیا گیا ان میں خودکش یونٹ کے سربراہ شیر زمان مخلص یار، اختر محمد عرف خلیل، اظہار عرف حمزہ اور شعیب محمد شامل ہیں۔ موصولہ ویڈیوز کلپس میں ایک شخص مذکورہ ٹارگٹ کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے خود اعتراف کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے ” کیمپ” کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں بقول ان کے بہت ہلاکتیں ہوئیں اور ہلاک ہونے والوں میں ان کا امیر بھی شامل ہے۔
افغان حکومت نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر احتجاج کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ ایک ایسے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں وزیرستان سے آئے ہوئے مہاجرین قیام پذیر تھے تاہم پاکستان کے سیکورٹی ذرائع کے علاوہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں لمبے عرصے سے کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں جاری تھیں اور گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین پر فورسز پر جو حملہ کیا گیا تھا اس کی ریکروٹنگ اور پلاننگ بھی برمل ہی میں کی گئی تھی۔ اس حملے میں فورسز کے 16 اہلکار شہید ہوئے تھے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق یہ کہنا غلط ہے کہ عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق حملوں سے قبل مکمل انٹلیجنس رپورٹس اور مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر تیاری کی گئی تھی اور ٹی ٹی پی ہی کے مضبوط ٹھکانے ہی نشانہ بنائے گئے ہیں جہاں سے پاکستان خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان پر وقتاً فوقتاً حملے کیے جارہے تھے۔
مقامی ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق تین سے چار مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ بعض کمانڈرز کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی رہائش پذیر تھے اس لیے اگر افغان حکومت خواتین یا بچوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کررہے ہیں تو یہ ان کمانڈرز کے خاندان والے ہوسکتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع برمل میں کافی عرصے سے وزیرستان بیسڈ خوارج رہائش پذیر ہیں اور ان کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔ جن سرحدی افغان صوبوں میں کالعدم ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر گروپ اور لشکر اسلام کے جنگجو رہائش پذیر ہیں ان میں پکتیکا، خوست، پکتیا اور ننگرہار سرفہرست ہیں۔
پاکستان نے مارچ 2024 کو بھی ایسے ہی ٹھکانوں کو ائیر فورس کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔ اس وقت بھی افغان حکومت اس بات سے انکاری تھی کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا۔ منگل کی شام والے حملوں پر بھی وہی پرانا موقف اختیار کیا گیا۔ ان ٹارگٹڈ فضائی کارروائیوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے “عمر میڈیا” کے ٹھکانے اور سسٹم کو بھی تباہ کیا گیا۔
دوسری جانب افغانستان کے لئے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے منگل ہی کو کابل میں افغان وزراء اور حکام کے ساتھ اہم ملاقاتیں کیں اور اس کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ قرار دیا گیا۔ صادق خان اور ان کی ٹیم نے جن وزراء سے ملاقاتیں کیں ان میں وزیرداخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں سے متعلق جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق دونوں ممالک کے حکام نے سیکورٹی صورتحال کے علاوہ پاک افغان تجارت ، آمد و رفت اور افغان مہاجرین کی واپسی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس ضمن میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صادق خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان کی سیکورٹی اور استحکام بہت اہم ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کے قیام کی صورت میں نہ صرف دو طرفہ آمد و رفت کو آسان بنایا جاسکتا ہے بلکہ تجارت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سیاسی ماہرین ایک ایسے وقت میں اس دورے کو کافی اہمیت دے رہے ہیں جب دونوں ممالک کے تعلقات کالعدم ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں کے باعث اگست 2024 سے کشیدگی سے دوچار ہیں اور پاکستان مسلسل یہ شکایت کرتا آرہا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر کے خلاف درکار اقدامات سے گریزاں ہے۔ متعدد تجزیہ کار اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیے کہ پاکستان نے صادق خان کے دورہ کابل کے دوران برمل میں کارروائیاں کیوں کیں؟ بعض نے اس ضمن میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کے پاس بیک وقت دو سے زائد آپشنز موجود ہیں اور اگر افغان حکومت اس دورے کے دوران حسب معمول افغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ کرنے والوں سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے تو منگل والے سٹرایکس میں ہلاک ہونے والے اہم کمانڈروں کی برمل وغیرہ میں موجودگی کو بطور حوالہ پیش کیا جائے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی متعدد کمانڈروں کو افغانستان کے مختلف علاقوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم رواں برس مارچ کے بعد یہ پاکستان کی دوسری بڑی کارروائی سمجھی جارہی ہے۔
( 25 دسمبر 2024 )