GHAG

صوبائی حکومت کی کہانی چلتی رہے گی

21دسمبر 2024

اے وسیم خٹک

دو دفعہ کاذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک  نڈر خان نامی شخص کو گاؤں کا مشر منتخب کیا گیا۔ اس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور لوگ اُن بڑی مونچھوں کی وجہ سے لوگ اس سے ڈرتے تھے۔ گاؤں کے بڑوں کو معلوم تھا کہ وہ صرف نام کا نڈر ہےاس لئے قرعہ فال اس کے نام نکالا گیا بلکہ پرانے لیڈروں نے الیکشن سے دستبرداری کی بڑے بڑوں نے سوچا گیا کہ جب وہ مونچھوں کو تاؤ دے گا تو لوگ ڈر جایا کریں گے اور گاؤں کے کام بھی ہوا کریں گے جو اب تک نہیں ہوئے امیدیں تھیں کہ اب گاؤں کے مسائل حل ہوں گے، سکول آباد ہوں گے، پانی کی قلت ختم ہوگی  اور امن قائم ہوگا۔ نڈرخان نے بھی بلند و بانگ وعدے کیے کہ وہ گاؤں کے لیے نئی راہیں کھولے گا۔ ابتداء میں اس نے کچھ اقدامات کیے مگر پھر گاؤں میں چوری چکاری، ڈکیتییاں شروع ہوگئیں اور وہ کچھ نہ کرسکا بلکہ وہ عوام کو باہر نکال کر احتجاج کرتا کہ میں مشر تو ہوں مگر میرے پاس طاقت نہیں ہے  یوں نڈر خان کی توجہ ان وعدوں سے ہٹ گئی جن کی بنیاد پر وہ منتخب ہوا تھا۔

نڈر  خان نے جب دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا تو وہ ذاتی کاموں اور دیگر گاؤں کے چودھریوں کے ساتھ جھگڑوں میں الجھ گیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ گاؤں کی عزت اور خودمختاری کے لیے ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہے، جس کے لیے وقت درکار ہے۔ گاؤں کے لوگ پانی کی قلت، روزگار کی کمی، اور سکولوں کی حالت زار بکی شکایت لے کر آتے تو وہ انہیں یہی جواب دیتا کہ پہلے اس کی بڑی لڑائی جیتنا ضروری ہے۔

دوسری طرف نڈر خان کے قریبی ساتھی اکبر اور سجاد گاؤں کے بوسائل کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے لگے۔ گاؤں کے نوجوان، جو روزگار کی امید لے کر آئے تھے، خالی ہاتھ واپس لوٹتے رہے۔ سکول تباہ حالی کا شکار رہے، اور خواتین پانی کے لیے میلوں کا سفر کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ گاؤں کے لوگ دھیرے دھیرے یہ سمجھنے لگے کہ نڈر خان کے وعدے محض باتیں تھیں اور اس کی اصل ترجیحات کہیں اور تھیں۔بلکہ اسے صرف کرسی پر بٹھایا گیا تھا ۔ڈوریں اس کے ہاتھ میں نہیں تھیں، اور یوں وقت گزرتا رہا ۔

اس کہانی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہانی خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ عوام نے امین گنڈا پور اور ان کی حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ کیں۔ توقع تھی کہ صوبے میں امن و امان بحال ہو گا، مہنگائی پر قابو پایا جائے گا، نوجوانوں کو روزگار ملے گا، اور تعلیمی ادارے ترقی کریں گے۔ لیکن ان تمام امیدوں کو نظرانداز کیا گیا۔

صوبے میں امن قائم کرنے کے دعوے تو بہت کیے گئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور عوام خود کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کرنے لگے۔ معیشت کے میدان میں بھی صورتحال خراب رہی۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان نے عوام کی زندگی مشکل بنا دی، اور بے روزگاری نے نوجوانوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیا۔

تعلیم کے شعبے میں بھی حکومتی کارکردگی مایوس کن رہی۔ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرریاں سیاست کی نذر ہو گئیں، اور تعلیمی اداروں کو نظرانداز کیا گیا۔ حکومت نے اپنی توانائی عوامی مسائل کے حل کے بجائے سیاسی تنازعات اور ذاتی ایجنڈے پر صرف کی۔ وفاق کے ساتھ ٹکراؤ اور عمران خان کو سیاسی میدان میں واپس لانے کی کوششوں نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا۔

عوام کو دھیرے دھیرے یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے والا کوئی نہیں۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی ترجیحات درست کرے اور عوام کے مسائل کو اولین ترجیح دے۔ بصورت دیگر، یہ دور عوام کی یادداشت میں ایک ناکام تجربے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔اور کہانی چلتی رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts