اے وسیم خٹک
پاکستان کے حالات کو بعض حلقے شام، افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں، کہ بس بنگلہ دیش اور شام کے بعد بس پاکستان میں بھی انقلاب اوے ہی اوے اور یہ سوچ ایک جماعت کی ہے جو زیر عتاب ہے ۔لیکن یہ ملک نہ شام ہے، نہ عراق، نہ افغانستان اور نہ بنگلہ دیش۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہر دور میں مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتیں ملک میں بغاوت یا انقلابی تبدیلی کے خواب دیکھتی رہی ہیں، مگر یہ خواب ہمیشہ ناممکن ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سماجی اور سیاسی صورتحال دیگر ممالک سے یکسر مختلف ہے، جہاں قبائلی، نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم کی موجودگی کے باوجود ریاست کے بنیادی ستون مضبوط اور متحرک ہیں۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جب بھی انتشار یا بغاوت کے منصوبے بنائے گئے، وہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام میں کوئی مشترکہ انقلابی ایجنڈا موجود نہیں۔ یہاں عوام کا ایک طبقہ اسلامی نظام کا خواہاں ضرور ہے لیکن وہ نظام، جس کی تشریح طالبان نے سوات اور وزیرستان میں کی، اسے کسی صورت قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ اسلامی نظام کی خواہش رکھنے والے عوام اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی نظام ہو، نہ کہ ایسا نظام جو دہشت، قتل و غارت اور انسانی حقوق کی پامالی پر مشتمل ہو۔
حال ہی میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایک باغی گروپ “ہیئت تحریر الشام” کے ہاتھوں ہوا، جو ماضی میں القاعدہ کا حصہ رہا ہے۔ یہ پیشرفت خطے کے لیے کئی نئے سوالات کھڑے کرتی ہے۔ شام کی صورتحال نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پاکستان اور افغانستان میں بھی انتہا پسند گروہوں کے حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) نے اس بغاوت کا باقاعدہ خیر مقدم کیا ہے، جب کہ افغان طالبان نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایک تشویشناک اشارہ ہے کہ کس طرح نظریاتی ہم آہنگی کے ذریعے یہ گروپ ایک دوسرے کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے بھی یہ پیش رفت پسند کی گئی ہے
پاکستان کے تناظر میں یہ صورتحال اس لیے بھی اہم ہے کہ ماضی میں قبائلی علاقوں سے سینکڑوں دہشت گرد شام اور عراق میں لڑنے گئے اور بعد میں داعش خراسان یا القاعدہ میں شامل ہوگئے۔ یہ کمانڈرز آج بھی پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ مزید برآں، خیبرپختونخوا جیسے حساس صوبے میں موجود سیاسی قیادت اور ان کے نظریات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے بیانات ماضی میں طالبان اور دیگر گروہوں کے لیے نرم گوشہ ظاہر کرتے رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بطور وزیر اعظم افغانستان میں طالبان کی فتح کا خیر مقدم کیا تھا، اور اسامہ بن لادن کو ہیرو قرار دینا بھی ان کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حالیہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک قرارداد کی منظوری، جس میں کسی مجوزہ فوجی کارروائی کی مخالفت کی گئی، یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ صوبائی حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟
پاکستان کی مسلح افواج اور سیکیورٹی ادارے اس وقت ملک کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ ان اداروں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، ریاست مخالف بیانیہ اور پروپیگنڈہ مسلسل جاری ہے۔ اس بیانیے کا بنیادی مقصد پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو کمزور کرنا اور عوام کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنا ہے۔
پاکستان کی ریاست اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ یہاں کسی ایک گروہ یا جماعت کو اتنی طاقت حاصل نہیں کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر سکے۔ شام، عراق یا افغانستان جیسے حالات یہاں ممکن نہیں کیونکہ سماجی تقسیم پاکستان میں کسی مشترکہ انقلابی تحریک کو ناممکن بناتی ہے۔ پاکستانی افواج اور دیگر ادارے ملک کے دفاع کے لیے متحرک ہیں اور کسی بھی اندرونی بغاوت کو کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عوام دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور سوات، وزیرستان سمیت دیگر علاقوں میں طالبان کے مظالم دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز ضرور موجود ہیں، لیکن اس ملک کو شام یا افغانستان کے ساتھ جوڑنا حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ انتہا پسند گروہوں کی حمایت اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی جماعتوں کو عوام کے سامنے اپنی پالیسی واضح کرنی ہوگی۔ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظریاتی اور عملی سطح پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت موقف اپنائے تاکہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں عوام اسلامی نظام چاہتے ہیں، مگر وہ نظام جو قرآن و سنت کی اصل روح کے مطابق ہو، نہ کہ ایسا نظام جو دہشت گردوں کے ایجنڈے پر مبنی ہو۔ یہ ملک مضبوط ہے اور کسی بھی اندرونی یا بیرونی سازش کو ناکام بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔