خوشحال خان
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے دو کارکنان گیلہ من وزیر اور زکیم پشتین کو پی ٹی آئی کارکن آزاد داوڑ نے قتل کیا۔ اس کے جنازے کے دوران، منظور پشتین نے 11 اکتوبر 2024 کو ایک عظیم الشان پشتون اجتماع کا اعلان کیا جسے “پشتون قومی عدالت” یا PQA کا نام دیا گیا۔گیلہ من وزیر کی موت نے منظور پشتین جیسے ریاست مخالف عناصر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔حقیقت میں، آزاد داوڑ پی ٹی آئی کے حامی تھے، جن کی پارٹی میں اہم سیاسی روابط بھی تھے۔ اس طرح کے پر تشدد واقعات کو ریاست، سیکورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے منسوب کرنا اور پیچیدہ قبائلی محرکات کو نظر انداز کرنا خالصتا لاپرواہی ہے۔
پی ٹی ایم ایک بار پھر کوشش کر رہی ہے کہ پشتونوں کی حالت زار کو ان کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ پاکستان میں اختلاف اور بدامنی کو بھڑکانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرے۔ پشتین کے اورکزئی اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں کے حالیہ دورے پی ٹی ایم کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کی حکمت عملی کی زندہ مثال ہے جس سے خطے میں بحالی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔
پشتون قومی عدالت حقوق دراصل پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان بیانیوں کو بے نقاب کیا جائے جو امن و امان میں خلل ڈالنے کے حربوں کے سوا کچھ نہیں۔
پی ٹی ایم کے اقدامات ملک دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتے ہیں اور گیلہ من وزیر کے تابوت کو افغان پرچم میں لپیٹنا ان کے علیحدگی پسند رجحانات کا واضح ثبوت ہے۔پی ٹی ایم اور فتنہ الخوارج اپنی حکمت عملی میں بے شک مختلف نظر آئیں لیکن یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ان کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سبوتاژ کرنےکے علاوہ کچھ نہیں۔
27 مئی 2022 کو شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے مظاہرین نے فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں پانچ فوجی زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ پی ٹی ایم کی بیانات اور اس کے اقدامات میں تضاد کو نمایاں کرتا ہے۔ فتنہ الخوارج کی طرف سے فروغ پانے والے فوج مخالف جذبات اور پی ٹی ایم کے اقدامات بلکل ایک جیسے ہیں۔ دونوں فاٹا اور خیبرپختونخوا انضمام کی مخالفت کرتے ہیں، فوجی چیک پوسٹوں کو ختم کرنے اور خطے میں فوج کی موجودگی کو کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز PIPSکی رپورٹ (2023) کے مطابق فتنہ الخوارج نے صرف 2023 میں 208 حملے کیے، جن میں 579 افراد جاں بحق ہوئے۔ فتنہ الخوارج دہشت گردانہ حملوں اور خودکش بم دھماکوں جیسےپر تشدد حربوں کا سہارا لیتا ہے جبکہ پی ٹی ایم فوج پر تنقید کرنے کے لیے سیاسی اور سماجی نقطہ نظر کا استعمال کرتا ہے جس میں دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام سر فہرست ہے۔ان کےحرکات و سکنات ایک مربوط حکمت عملی کےتحت ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ فتنہ الخوارج فوج کے خلاف حملے کرتی ہےجبکہ پی ٹی ایم بعد میں ہونے والی فوجی کارروائیوں پر تنقید کرتی ہے اور ان پر پشتونوں کے حقوق کا استحصال کا الزام لگاتی ہے۔بہر حال یہ واضح ہے کہ پی ٹی ایم فتنہ الخوارج کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہے۔
19 جولائی 2024 کو بنوں میں فتنہ الخوارج کے حملے کے بعد پی ٹی ایم اور اتحادیوں کی طرف سے ایک نام نہاد امن مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں بڑی ہوشیاری سے افراتفری پھیلائی گئی اور پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے شرپسندوں کو چھاؤنی میں گھسایا گیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جون 2024 سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے باوجود پی ٹی ایم نے ٓاج تک ان حملوں کی مذمت نہیں کی بلکہ یہ ہمیشہ پاک فوج پر پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتی رہی ہے۔
EU DisinfoLab- Indian Chronicles (2020) کے مطابق کچھ این جی اوز اور یورپین فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز EFSAS جیسے اداروں کی ان سے معاونت مزید شبہات کو جنم دینے کے ساتھ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
ملک میں بدلتی ہوئی صورتحال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مکتی باہنی سے لے کر پی ٹی ایم اور فتنہ الخوارج جیسے گروہ کس طرح پاکستان میں نسلی، لسانی، مذہبی اور ثقافتی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔ اس تناظر میں پی ٹی ایم کی فتنہ الخوارج کی حمایت بلکل حیران کن نہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پی ٹی ایم ہمیشہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی بات کرتی ہے لیکن جب بھی انسداد دہشت گردی یا آپریشنز کی بات ہوتی ہے تو سیاسی جماعتوں کے اندر ان دہشت گردوں کے حمایتی فوراً رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
پی ٹی ایم اور فتنہ الخوارج کے مابین یہ تعلق یعنی پرتشدد کارروائیاں اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے/ریلیاں،سنگین خدشات پیدا کرتی ہیں اور پالیسی سازوں سے انتہائی ردعمل کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ یہ چکر دیگر گروہوں (سیاسی مخالفین اور فتنہ الخوارج کے ہمدرد) کو اپنی طرف کھینچ کر اور انہیں پشتونزم کے تحت متحد کرنےکا موجب بن سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں انڈین ایجنسی راء اور سرحد پار افغانستان میں موجود فتنہ الخوارج کی حمایت سے مزید تیز بھی ہوسکتی ہیں۔