GHAG

میرے سوالات اور پشتون نوجوانوں کے جوابات

تحریر: شمس مومند

گزشتہ روز میں نے اپنے پشتون قارئین و ناظرین سے ایک مختصر وی لاگ کے ذریعے چند سوالات پوچھے تھے کہ موجودہ صورتحال میں آخر وہ چاہتے کیا ہیں کیا وہ اپنے مؤقف اور جدوجہد کے مقاصد سے آگاہ ہیں؟  صرف دو دن میں ٹویٹر یعنی ایکس اور فیس بک پر تقریباً 20 ہزار افراد  اس کو  دیکھ چکے ہیں۔ سینکڑوں لائیک اور 200 افراد تفصیلی کمنٹس کرچکے ہیں۔

سوالات کچھ یوں تھے:

  • پشتون نوجوان موجودہ حالات میں کیا چاہتے ہیں: امن، حقوق، یا دونوں؟

  • وہ کس سے امن مانگتے ہیں؟ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت یا فوج سے؟

  • کیا پشتون نوجوان انقلاب چاہتے ہیں جس کے ذریعےالگ ملک بنائیں یا افغانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ یا پھر مکمل صوبائی خود مختاری ؟

  • اگر انقلاب چاہتے ہیں تولیڈر کون ہوگا: مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی خان، منظور پشتین یا پھر علی امین گنڈاپور؟

  • اگر پشتون نوجوان دہشت گردی اور فوجی آپریشن کے بغیر امن چاہتے ہیں تو اس کا متبادل طریقہ کار اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟

حیران کن بات یہ ہے کہ فیس بک اور ایکس پر میرے فالورز کی رائے کافی الگ الگ ہے۔ فیس بک پر 98 فیصد کمنٹس کرنے والوں کی رائے ہیں کہ ہم نہ الگ ملک چاہتے ہیں، نہ افغانستان کیساتھ ملنا چاہتے ہیں اور نہ پاکستان کے اندر کوئی خونی انقلاب کے خواہاں ہیں۔ ہم اپنے صوبے اور قبائلی اضلاع میں امن چاہتے ہیں ۔

قارئین کا کہنا ہے کہ ہمیں اب بھی اپنی فوج سے بجا طور پر توقع ہے کہ اگر وہ عالمی اور جغرافیائی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی پوری صلاحیت اور خلوص کیساتھ اقدامات کرے تو دنوں اور ہفتوں میں دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے پشتون نوجوان مطالبہ کرتے ہیں کہ گڈ اور بیڈ طالبان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی یقینی بنائی جائے اور پھر اختیارات کو صوبائی انتظامیہ اور پولیس کے حوالے کرکے مکمل کنارہ کش ہوجائے۔ یعنی پھر صرف سرحدوں کی حفاظت اور وہاں سے ہر قسم کی سمگلنگ اور دہشت گردوں کی آمد ورفت کو کنٹرول کرے،اسکے بعد صوبائی حکومت جانے ،عوام جانے اور امن وامان کی صورتحال۔

جہاں تک ایکس کے ذریعے کمنٹس کرنے والوں کی رائے کا تعلق ہے وہاں تقسیم نظر آتی ہے۔ یعنی 50/55 فیصد لوگوں کا خیال فیس بک والے دوستوں کی طرح ہے کہ انقلاب یا پختونستان نہیں چاہتے صرف امن چاہتے ہیں اور سیاست سمیت انتظامی معاملات میں فوجی مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ البتہ باقی لوگوں کی سوچ اور انداز زیادہ جارحانہ ہے۔ وہ فوجی مداخلت اور پنجابی بیوروکریسی کی سپر میسی کو ختم کرنے کے لئے انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ مگر وہ خود بھی کلئیر نہیں کہ انقلاب کا لیڈر کون ہوگا؟ لیڈر کے چناؤ میں ایمل ولی اور منظور پشتین کے حامی زیادہ جبکہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے اس سے نسبتاً کم ہیں۔ ایک دو فالورز کا خیال ہے کہ عوامی انقلاب میں لیڈر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یہ خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔

اس دو روزہ پریکٹس کا خلاصہ یہ ہے کہ 20 سالہ میدان جنگ بننے ، امن پاسون، جلسے جلوسوں اور جارحانہ نعروں کے باوجود پشتون نوجوان اب بھی ریاست پاکستان کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مگر وہ ریاست سے ایک ظالم باپ کی بجائے ایک شفیق ماں بننے کا جائز مطالبہ کرتے ہیں۔

میرے خیال میں عوام اور فوج کے درمیان جو عدم اعتماد پیدا ہوئی ہے اسکو پاٹنے کے لئے عسکری قیادت سمیت مخلص سیاسی قیادت کو آگے آنا ہوگا۔ حقیقی ڈیجیٹل دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور غداروں کے خلاف اقدامات ضرور کیجئے مگرریاست سے شکوہ کناں لاکھوں پشتون نوجوانوں کو سینے سے لگانے کی ضرورت ہے۔ ان کو روزگار امن اور اپنے حقوق کی ضمانت چاہیے۔ پھر وطن دشمنوں کو وہ خود جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔  کیا ان معروضات پر کوئی توجہ دینے کی زحمت کرے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts