GHAG

پشتون قوم کی لازوال قربانیاں اور قومی استحکام میں کردار

تحریر: اے وسیم خٹک

پاکستان کی تاریخ میں پشتون قوم کی قربانیاں ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہیں جو ہر دور میں اپنی بہادری، عزم، اور وطن سے محبت کی مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت جب ملک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا، تب پشتون قبائل نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے نئی ریاست کی بقا کو یقینی بنایا۔ 1947 میں کشمیر پر ہندوستانی قبضے کے خلاف قبائلی مجاہدین نے پاک فوج کے ساتھ مل کر وہ کردار ادا کیا جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ قبائلی لشکروں کی مدد سے پاکستانی افواج نے کئی علاقوں کو دشمن کے قبضے سے آزاد کروایا جس میں ان کی بے خوفی اور بہادری کا مرکزی کردار رہا۔

اس کے بعد جب 1965 اور 1971 کی جنگیں ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر پشتون فوجی اور قبائلی رضاکار ہر محاذ پر سب سے آگے دکھائی دیے۔ 1965ء کی جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر ان کی بے مثال قربانیاں آج بھی یاد رکھی جاتی ہیں۔ جب وطن کا دفاع درپیش تھا، پشتون سپاہی نہ صرف میدان جنگ میں حاضر تھے بلکہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی توپوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ اسی طرح 1971ء کی جنگ میں بھی، جہاں مشرقی پاکستان کا محاذ تھا، وہاں بھی پشتون افسران اور جوانوں نے اپنی صلاحیتوں اور حوصلے سے دشمن کو کئی محاذوں پر مشکلات میں ڈالے رکھا۔

پشتونوں کی قربانیاں صرف بیرونی دشمنوں کے خلاف ہی نہیں رہیں، بلکہ داخلی سطح پر بھی انہوں نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 1980 کی دہائی میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا، تو لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آباد ہوگئے۔ اس دوران پشتون قبائل نے اپنی سرزمین کو ایک جنگی محاذ میں تبدیل ہوتے دیکھا، لیکن انہوں نے نہ صرف افغان بھائیوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولے بلکہ روس کے خلاف جہاد میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اس لڑائی نے نہ صرف خطے کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کیا بلکہ پشتون علاقوں کو میدان جنگ بنا دیا، جہاں ہر روز نئی قربانیاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔

2001 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مرکز خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقے بن گئے۔ اس جنگ میں بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی قوم پشتون تھی۔ چالیس ہزار سے زائد پشتون اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کے شہر، دیہات، بازار اور گھر جنگ کی نذر ہوگئے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ خودکش حملے، بم دھماکے، اور عسکری آپریشنز کے باوجود پشتون علاقے اپنی شناخت، غیرت، اور روایات کے ساتھ کھڑے رہے۔ ان حالات میں ان کے صبر اور عزم کی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو یہاں بھی پشتون قوم کا کردار نمایاں ہے۔ مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں کی کامیابی میں پشتون عوام کی حمایت ہمیشہ اہم رہی ہے۔ تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، اور دیگر سیاسی جماعتوں میں پشتون ورکرز اور رہنما ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں بھی خیبرپختونخوا، بلوچستان اور قبائلی اضلاع کے علاقوں کے پشتون سیاسی قائدین کا کردار ملکی سطح پر اہمیت کا حامل ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف کی کامیابی میں خیبرپختونخوا کے پشتون عوام کی حمایت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سوات سے لے کر وزیرستان تک، جہاں بھی پاکستانی ریاست کو سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہوا، وہاں سب سے پہلے پشتون ہی سامنے آئے۔ ان کی قربانیوں کی داستانیں ہر گھر میں سنائی جاتی ہیں۔ ملاکنڈ، باجوڑ، اور خیبر جیسے علاقے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی، آج بھی اپنی قربانیوں کے نتیجے میں دوبارہ تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان علاقوں کی بہادری اور جرات کو سراہنا چاہیے جو انہوں نے ریاست کی سلامتی اور استحکام کے لیے دی۔

پشتونوں کی یہ قربانیاں آج بھی جاری ہیں۔ پاکستان کی سالمیت، قومی یکجہتی، اور دفاع کے لیے ان کا جذبہ اور کردار نہ صرف پاکستان کے لیے باعث فخر ہے، بلکہ ان کی یہ جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مثال ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp