بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
پشتونوں کو ہمیشہ سیاسی، مذہبی اور جغرافیائی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور یہ خود بھی بخوشی استعمال ہوئے۔ ہر دور میں انہیں جذباتی نعروں اور کھوکھلے وعدوں سے ورغلایا گیا۔ حالیہ مثال عمران خان کے احتجاج کی ہے، جہاں 24 نومبر کو اپنی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے ساڑھے 12 کروڑ آبادی کے صوبے پنجاب کو چھوڑ کر چار کروڑ آبادی کے خیبر پختونخوا کو احتجاج کا مرکز بنایا گیا۔ بشریٰ بی بی نے پشاور آ کر پشتونوں کے جذبات کو بھڑکایا اور اپنی تقاریر میں کہا: “مجھے یقین ہے کہ بہادر اور غیرت مند پشتون آخر تک میرا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔” ان الفاظ نے پشتونوں کی روایتی غیرت اور وفاداری کو ان کے خلاف استعمال کیا۔
پشتونوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے، مگر یہ قربانیاں اکثر دوسروں کے مفاد کے لیے دی گئیں۔ سیاسی تحریکوں، مذہبی جنگوں، اور جہادی مہمات میں انہیں ہمیشہ اگلی صفوں میں کھڑا کیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی سیاسی اشرافیہ نے انہیں طاقت کے توازن کے لیے استعمال کیا، مگر حقیقی نمائندگی یا ترقی کے مواقع فراہم نہیں کیے۔ اسلام، جہاد، اور غیرت کے جذباتی نعروں کے تحت پشتونوں کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ کبھی مجاہدین کے طور پر، کبھی دہشتگرد کے طور پر اور ہر کردار کے نتیجے میں انہیں صرف تباہی اور بدحالی ملی۔
پشتون علاقوں کو بیرونی طاقتوں کا میدان جنگ بنایا گیا۔ مغلوں، صفویوں، درانیوں، برطانوی راج اور سرد جنگ کے دوران ان کے علاقوں کو پراکسی جنگوں کے لیے استعمال کیا گیا جس سے ان کے سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور پسماندگی میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ ان کی شناخت کو ہمیشہ “بہادر جنگجو” تک محدود کیا گیا جس نے اصل ترقی میں رکاوٹ ڈالی۔ جنگی مہارت، غیرت، اور وفاداری کو بیرونی اور اندرونی طاقتوں نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ہتھیار ان کا زیور ہیں اور بہادری ان کے خون میں شامل ہے، مگر یہ تمام تعریفیں صرف استحصال کا ذریعہ بنیں۔
عمران خان کے احتجاج میں بھی یہی ہوا۔ قیادت مکمل سیکورٹی کے ساتھ محفوظ رہی جبکہ کارکنوں کو پولیس اور فوج کے سامنے جذباتی نعروں کے ذریعے کھڑا کر دیا گیا۔ جب وقت آیا تو قیادت محفوظ راستوں سے نکل گئی، اور کارکنوں کو گرفتار ہونے، زخمی ہونے، یا جان دینے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ پشتونوں کو بار بار کیسے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
اب وقت ہے کہ پشتون اپنی اصل مشکلات کو سمجھیں اور دوسروں کے مقاصد کے لیے استعمال ہونا ترک کریں۔ اپنی شناخت “جنگجو قوم” کے بجائے تعلیم یافتہ، پرامن اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر پیش کریں۔ حکومت، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ان کی تعلیم، ترقی، اور خوشحالی پر توجہ دینا ہوگی۔ خواتین اور نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جو انہیں معاشی اور سماجی ترقی میں کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں۔
پشتون ثقافت کے مثبت پہلوؤں، جیسے شاعری، موسیقی، اور مہمان نوازی کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ قبائلی اختلافات کو ختم کر کے پشتونوں کے لیے مضبوط قیادت کا قیام ضروری ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پشتون حقوق کی مؤثر نمائندگی کی جائے۔
پشتون خواتین کی ترقی کے بغیر معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ لڑکیوں کو معیاری تعلیم فراہم کر کے انہیں خودمختار بنایا جائے اور خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت یقینی بنائی جائے۔ ان کی مشکلات کے خاتمے کے لیے تعلیم و معیشت میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔
پشتونوں کی بہادری کو علم، امن اور ترقی کی راہ پر موڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر دنیا ان کے مسائل حل کرنے اور ترقی میں مدد کرے، تو وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جنگوں کی بجائے، اگر پشتون تعلیم، معیشت، اور ثقافت میں آگے بڑھیں، تو وہ دنیا میں اپنی جگہ خوشحال اور مہذب قوم کے طور پر بنا سکیں گے۔ یہ وقت ہے کہ پشتون جنگ کے بجائے ترقی کے شراکت دار بنیں اور اپنی روایات کو امن و خوشحالی کے لیے استعمال کریں۔