GHAG

سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال

تحریر: اے وسیم خٹک

خیبرپختونخوا میں 2024 کے دوران دہشت گردی کے سنگین واقعات نے صوبے کو شدید متاثر کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جس کو غگ ڈاٹ پی کے میں بھی شائع کیا گیا ہے،جنوری سے اکتوبر تک ہونے والے حملوں میں 429 شہری اور سیکورٹی اہلکار شہید جبکہ 789 افراد زخمی ہوئے۔ اس دوران صوبے کے جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا، جہاں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 81 فیصد حملوں میں خاص طور پر خیبرپختونخوا پولیس کو نشانہ بنایا گیا، جس میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ صوبے کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور شمالی وزیرستان شامل ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ان دس مہینوں کے دوران 74 سیکورٹی اہلکار اور شہری شہید ہوئے، بنوں میں 72 جبکہ شمالی وزیرستان میں 64 افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پولیس فورس کی قربانیوں میں بھی اضافہ ہوا، جہاں 134 پولیس اہلکار شہید اور 326 زخمی ہوئے۔

یہ حملے صرف پولیس تک محدود نہیں رہے؛ 115 عام شہری بھی اس دوران شہید ہوئے جبکہ 209 زخمی ہوئے۔ پشاور میں ہونے والے مختلف حملوں کے نتیجے میں 12 پولیس اہلکار شہید اور 16 زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں اکتوبر 2024 کے دوران خاص طور پر جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہوا، جس میں 46 حملے رپورٹ ہوئے اور 46 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے جن میں 6 افسران بھی شامل ہیں۔

اکتوبر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے خیبرپختونخوا میں مزید 220 حملے کیے گئے، جن میں 130 افراد جاں بحق ہوئے۔ ڈی آئی خان ڈویژن میں صرف اکتوبر میں 87 حملے ہوئے، جبکہ بنوں، شمالی وزیرستان اور لکی مروت میں 72 حملے کیے گئے۔ تحریک طالبان کے ترجمان کے مطابق، ان حملوں میں پولیس اور فوج کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

صوبے میں جاری دہشت گردی اور سیکورٹی صورتحال پر قابو پانے کے لئے سیکورٹی فورسز کی قربانیاں قابل ستائش ہیں، مگر حکومتی اداروں کی خاموشی اور غیر فعال کردار سے عوام میں بے چینی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا سمیت اہم سیاسی شخصیات اور ماہرین نے حالیہ سیمینارز میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر زور دیا کہ سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور این ایف سی ایوارڈ کا اجرا کیا جائے تاکہ فاٹا انضمام کے وقت کیے گئے وعدے پورے ہو سکیں۔

حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ اپیکس کمیٹی کا فوری اجلاس طلب کیا جائے جس میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی شرکت یقینی بنائی جائے تاکہ صوبے کی عوام کو یہ پیغام جائے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔ فورسز نے اگرچہ کچھ ٹارگٹڈ آپریشنز کے ذریعے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک یا زخمی کیا ہے، مگر اس مسئلے کا حل حکومت اور سول اداروں کی فعال شراکت داری میں ہی ممکن ہے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے پشتون علاقے حکومت کی بے توجہی اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ مسائل انہی علاقوں میں دیکھے جا رہے ہیں، جبکہ دیگر صوبوں میں سیکورٹی کے حالات قدرے بہتر ہیں۔ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا قربانیاں دینے کے لئے صرف پشتون ہی باقی رہ گئے ہیں؟ حکومت عوام کے حقیقی مسائل کو ترجیح دینے کے بجائے محض رسمی بیانات اور مذمتی الفاظ پر اکتفا کر رہی ہے، جس سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

صوبائی حکومت کو چاہیے کہ سول اداروں کو فعال کرے، انتظامی مسائل پر توجہ دے، اور سیکورٹی کے معاملات میں اپنا حصہ ڈالے۔ گورنر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی محدود حیثیت سے باہر نکل کر حکومتی سطح پر سیکورٹی کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ یہ وقت رسمی بیانات کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp