یہ بات قابل تشویش ہے کہ پاکستان کو درپیش سیکورٹی، معاشی اور سماجی چیلنجز کے ہوتے ہوئے ایک مخصوص پارٹی اور علاقائی، عالمی پراکسیز کے ذریعے کوششیں کی جارہی ہیں کہ ملک کو خانہ جنگی کی صورتحال سے دوچار کیا جائے۔ ایک ایسے ملک کو اندرونی خلفشار سے دوچار کرنے کی باقاعدہ سازشیں جاری ہیں جو کہ ایٹمی طاقت ہے اور خطے کے خطرناک ترین اور اہم ترین لوکیشن پر واقع ہے۔ کوشش کی گئی کہ امریکہ اور چین کے بعد پاکستان کے سب سے قابل اعتماد دوست ملک سعودی عرب کو ناراض کیا جائے اور یہ کوشش ایسے وقت میں کی گئی جب مذکورہ مخصوص پارٹی نے پہلے ہی سے 24 نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس اعلان کو اس کے باوجود خیبرپختونخوا کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے کہ اس حکومت کے تقریباً ایک درجن اضلاع کو بدترین حملوں کا سامنا ہے۔ بجائے اس کے کہ صوبے کے حکمران کرم یا بنوں میں ڈیرے ڈال کر معاملات پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرتے یا کسی جنازے میں شرکت کرتے ان حکمرانوں کی تمام توجہ اپنے بانی کو خوش کرنے کی مزاحمتی تحریک پر مرکوز ہے۔
حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ “بعد از خرابی بسیار” کے مصداق جب خیبرپختونخوا کے ایک وزیر اور چیف سیکرٹری کی قیادت میں ایک وفد نے کرم جانے کی “زحمت” گوارا کی تو جس ہیلی کاپٹر میں وہ سفر کررہے تھے اس پر فائرنگ کی گئی۔ خدانخواستہ اگر یہ حملہ کامیاب ہوجاتا تو پاکستانی ریاست کی ساکھ اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم کو کتنا نقصان پہنچ جاتا اس کا محض تصور کیا جاسکتا ہے۔ اسی دوران نیکٹا نے ایک تھریٹ الرٹ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے مذکورہ ایونٹ کے دوران دہشت گرد حملے کی اطلاعات ہیں اور یہ کہ اس کام کے لیے افغانستان سے خوارج کی تشکیل کی گئی ہے مگر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی کے تمام لیڈر اس تمام تر خوفناک صورتحال کے باوجود اعلانات کرتے ہوئے پائے گئے کہ وہ ہر قیمت پر اسلام آباد جاکر دم لیں گے اور اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک سابق وزیراعظم کو رہا نہیں کرایا جاتا۔
وزیر داخلہ نے مذکورہ اطلاعات کی بنیاد پر بیرسٹر گوہر سے متعدد بار خود رابطے کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی کیونکہ اس وقت پارٹی کے اندر فیصلہ سازی کا اختیار بشریٰ بی بی، علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے ہاتھ میں ہے۔ بشریٰ بی بی کی جانب سے سعودی عرب اور اپنی پارٹی پر “خودکش حملہ” کرنے والی بشریٰ بی بی کے بارے میں ان کی ترجمان نے کہا کہ وہ خرابی طبیعت کے باعث اس ایونٹ میں خود شرکت نہیں کرے گی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دوسروں کے بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے خود اور اپنی اولاد کو میدان میں لانے سے گریزاں کیوں ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج کرنا سب کا حق ہے اور اس ضمن میں وفاقی حکومت کے رویے کو بھی کلی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دوسری جانب کے جارحانہ اور باغیانہ طرز عمل کو کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔