اے وسیم خٹک
خیبر پختونخوا، خصوصاً ضلع خیبر اور قبائلی علاقوں میں امن و امان کی ابتر صورتحال نے ایک بار پھر عوام کو احتجاج اور امن مارچ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب لکی مروت ،بنوں اور باجوڑ میں پولیس کے احتجاج اور پھرمشروط جرگے کے بعد احتجاج کا خاتمے نے ایک نئے باب کی شروعات کردی ہے، مستقبل میں اس سے بڑا احتجاج بھی ہوسکتا ہے اگر حالیہ مطالبات سے روگردانی کی گئی۔ اس کے علاوہ خیبر امن مارچ میں شامل سیاسی و سماجی تنظیمیں اور عوام نے علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے اور علاقے میں پائیدار امن قائم کرے، مگر اب تک ریاستی اداروں کی غفلت اور غیر سنجیدگی کے باعث عوام کو مسلسل مشکلات کا سامنا ہے۔
ضلع خیبر، خاص طور پر علاقہ تیراہ، میدان اور باڑہ، میں مشکوک اور مسلح افراد کی آزادانہ نقل و حرکت اور ان کی سرگرمیوں پر حکومت اور ریاستی اداروں کی خاموشی نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ خیبر امن مارچ کے شرکاء نے نام نہاد امن کمیٹیوں اور لشکروں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مزید خونریزی اور بدامنی پھیلانے سے گریز کیا جائے۔
شرکاء نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء جیسے جرائم کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے۔ عوام اب بیدار ہو چکے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔ خیبر امن مارچ کا ایک اہم مطالبہ “ایکشن ان ایڈ آف سول پاور” کے کالے قانون کا خاتمہ ہے، جس کو یہ مظاہرین علاقے میں جاری بدامنی اور لاقانونیت کی جڑ سمجھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں امن کا قیام ایک پیچیدہ اور طویل المدتی عمل ہے، جو کئی عوامل پر منحصر ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، اور لاقانونیت نے یہاں کے عوام کو کئی دہائیوں سے متاثر کیا ہے، اور اب ایک بار پھر انہی مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم، امن کا قیام صرف ہتھیاروں یا فورسز کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس کے لیے معاشرتی انصاف، تعلیم، اور معاشی استحکام ضروری ہے۔
تعلیم کو امن کے قیام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ جب بچوں اور نوجوانوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور انتہا پسندی سے دور رکھنے کے لیے مواقع میسر ہوں گے، تو وہ امن اور بھائی چارے کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے۔
بے روزگاری اور غربت خیبر پختونخوا میں جرائم اور انتہا پسندی کے اہم عوامل ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار اور معاشی استحکام کی فراہمی سے وہ جرائم اور شدت پسندی کی طرف جانے سے بچ سکتے ہیں۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے ان مسائل پر توجہ دیں اور عوامی مطالبات سنجیدگی سے لیں، تو خیبر پختونخوا میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔