تحریر : اے وسیم خٹک
پاکستان میں بڑھتے ہوئے تنازعات کا سامنا ہے اور حکومت نے کالعدم تنظیموں جیسے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی ایم کے تحت منعقدہ ایک جرگے نے خاصی توجہ حاصل کی جس کے بعد حکومت نے ان تقریبات پر پابندی عائد کر دی۔ اس اقدام سے ریاست کی قومی استحکام کے لیے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ تاہم امن اور مزاحمت کے درمیان یہ معاملہ کافی پیچیدہ ہے، کیونکہ ہزاروں افراد ان تقاریب میں شرکت کرتے ہیں جو عوام میں موجود گہرے اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر حکومت نے سخت موقف اپنایا ہے۔ پی ٹی ایم، جو شروع میں پشتون حقوق کی تحریک کے طور پر اُبھری تھی، پر الزام ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہے۔ دوسری طرف کالعدم ٹی ٹی پی نے پی ٹی ایم کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جس نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پی ٹی ایم کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے پشتون حقوق کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم حکومت نے اس حمایت کو ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی تنظیمیں دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت نے ان تنظیموں پر پابندی عائد کر دی ہے اور ان کی سرگرمیوں میں شرکت کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
حکومت کی تمام تر پابندیوں کے باوجود، عوام کی بڑی تعداد اب بھی ان جلسوں اور جرگوں میں شرکت کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پشتون عوام کے درمیان حکومت کے فیصلوں پر عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کا ساتھ دینا قانوناً جرم ہے، اور ان میں شامل ہونے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اس سلسلے میں حکومت نے متعدد افراد کو اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 کے تحت شیڈول 4 میں شامل کیا ہے، جن میں جنوبی وزیرستان سے منظور احمد پشتین، شاہ فیصل غازی، جمال مالیار، عالم زیب، محمد سمیع عرف پشتین، حیات خان، امیر حمزہ، اشتیاق محسود، محمد بلال، عبدلقہار، ڈاکٹر سید عالم، سیف الرحمان، مرتضیٰ خان محسود، مصطفی چمٹو، محمد فاروق، اور محمد سجاد شامل ہیں۔
اسی طرح دیگر علاقوں میں بھی مختلف افراد کو شامل کیا گیا ہے جن میں صوابی سے خیر الامین، لیاقت علی یوسف زئی، عرفان مجنون، محمد علی، اور محمد عثمان؛ باجوڑ سے سلمان خان، ابوذر خان، غیرت خان، آصف علی، واجد علی، اور حذیفہ، خیبر سے حسین احمد، آفتاب شنواری، سمیع اللہ، محب افریدی، محمد حنیف، جہانگیر خان، ملک نصیر احمد، خان ولی، عمران لالا، اور امجد، ملاکنڈ سے ظہیر جہان، ہدایت الرحمان، تاج محمد غورزنگ، مشتاق خان، سعید تجمل حسن، اور کامران؛ اور مہمند سے شاکر (فکر مند)، مراد افغان، حبیب اللہ، سلیمان خان، قیصر خان، سلمان خان، صفدر مہمند، تفسیر مہمند اور زاہد صافی شامل ہیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں۔ دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ عوام کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے اور کالعدم تنظیموں کی حمایت نہ کرنے کا پیغام واضح کیا جا رہا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ان تنظیموں سے دور رکھیں تاکہ ملک میں امن کا خواب حقیقت بن سکے۔
یہ معاملہ صرف حکومت اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان نہیں بلکہ عوام کے دلوں اور دماغوں کی جنگ بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام مل کر امن اور ترقی کی طرف قدم بڑھائیں، تاکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو۔