مذاکراتی عمل سے اپنی لاتعلقی اور الزام جنرل باجوہ پر ڈالنے کا رویہ
پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں مجوزہ آپریشن کی پھر مخالفت؟
پاکستان نے ہر دور میں افغانستان کی مدد کی مگر بات نہیں بنی، صفی اللہ گل
پشاور (خصوصی رپورٹ) طالبان خان کہلانے والے سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے سال 2021 کے اپنے دور اقتدار کے دوران کابل میں افغان عبوری حکومت کے توسط سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک مذاکراتی عمل سے خود کو لاتعلق رکھتے ہوئے اس کی ذمہ داری سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر ڈال دی ہے۔
اپنے وکیل کے ذریعے ایک بیان میں بانی پی ٹی آئی نے ایک بار پھر غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی حکمت عملی جنرل باجوہ کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ طالبان کے معاملے پر اپنائی گئی پالیسی جنرل باجوہ نے دی تھی۔ اس موقع پر عمران خان نے نہ صرف یہ کہ اس “مہم جوئی” کے اصل سرخیل جنرل (ر) فیض حمید کا نام شامل کرنا بھی گوارا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک بار پھر پاکستان کی جانب سے 25 دسمبر کو پکتیکا ایئر سٹرایکس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک طرف اسپیشل وفد کابل بھیجتے ہیں اور دوسری طرف بمباری کرتے ہیں۔
اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر اور ممتاز سکالر، مصنف حسن عباس نے کہا کہ لگ یہ رہا ہے کہ مذکورہ مذاکراتی عمل پوری ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کی بجائے چند طاقتور افراد کی پالیسی اور خواہش تھی تاہم اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ عمران خان جہادی قوتوں کے ہر دور میں حامی رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ روز خیبرپختونخوا اسمبلی کے ایک اجلاس میں صوبائی وزیر زراعت سمیت پی ٹی آئی کے متعدد ممبران اسمبلی نے اپنی تقریروں میں کہا کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی مجوزہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کوئی نقل مکانی نہیں کریں گے بلکہ ان کے بقول اربوں روپے کی باڑ لگانے کے بعد یہ بتایا جائے کہ دہشت گرد اب کہاں سے آتے ہیں؟
یہ تقاریر 31 دسمبر کے روز اس وقت کی گئیں جب وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا اور اس کے نتیجے میں 2 افراد شہید اور ایک زخمی ہوا۔ اسی روز بنوں میں پولیس وین پر بارودی سرنگ دھماکہ میں 6 اہلکار شدید زخمی ہوگئے اور بعض دیگر اضلاع میں بھی حملے کیے گئے۔
اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار صفی اللہ گل نے “ایف ایم سنو پختونخوا” سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے ہر دور میں جہاں افغانستان کی مدد کرتے ہوئے مثبت کردار ادا کیا وہاں اس کی کوشش اور دلیل رہی کہ افغانستان کی سرزمین دہشتگردی کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو مگر دوسری جانب سے کوئی مثبت ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا بلکہ اب بھی کہا جارہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ افغانستان میں موجود نہیں ہیں۔ان کے بقول حالات اور واقعات میں اس وقت تک بہتری نہیں لائی جاسکتی جب تک افغانستان تعاون نہیں کرتا اور کراس بارڈر اٹیکس کا خاتمہ کرنے سمیت خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی ۔
(1 جنوری 2025)