GHAG

اقتدار اور اختلاف ساتھ ساتھ

 شمس مومند

چند سال پہلے تک ہم سجمھتے تھے کہ جمہوری طرز حکمرانی میں کوئی بھی پارٹی یا اقتدار میں ہوتی ہے یا اختلاف میں، کیونکہ جمہوری طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی مخلوط حکومت میں شامل کسی پارٹی کو حکومتی پالیسی سے اختلاف پیدا ہوجائے۔ تو وہ حکومت سے الگ ہوکر حزب اختلاف میں شامل ہوتی ہے۔ مگر بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کا جنھوں نے صرف ہمیں نہیں بلکہ پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو سکھا دیا کہ کس طرح ایک پارٹی بیک وقت اقتدار اور اختلاف کے مزے لے سکتی ہے۔ انھوں نے حکومتوں میں رہ کر حکومتوں پر تنقید کی ریت ڈالی۔ اور کسی کو یہ سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی کہ اگر حکومت سے اختلاف ہے تو اقتدار کے مزے کیوں لے رہے ہو۔جمیعت العلماٗ اسلام کی جانب سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب تقریبا تمام پارٹیوں تک سرائیت کرچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم( کڑوا کڑوا تو تو اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ) اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ عوام کو دھوکہ دینے اور ان کا خون اور جذبہ گرم رکھنے کا یہ طریقہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نسبتا آسان ہوگیا۔ کیونکہ اکثر صوبائی حکومتیں خود کو مظلوم اور عوام دوست ثابت کرنے کے لئے تمام برائیوں کی جڑ وفاقی حکومت اور اچھائیوں کا منبع صوبے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے صوبوں کو مورد الزام ٹھراتا ہے۔

مگر آج ہم اپنے صوبہ خیبر پختونخوا میں قائم ایک ایسی حکومت کی بات کرتے ہیں جس کا اگر ایک طرف کوئی حقیقی ولی وارث معلوم نہیں تو دوسری جانب ابھی تک اکثر لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہاں اقتدار کس کے پاس ہے اور حزب اختلاف کون ہے؟

مثلا عام عوام کا خیال ہے کہ یہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ علی امین گنڈاپور وزیر اعلی ہے اور عمران خان کی ہدایات پر عمل پیرا ہے۔ مگر پارٹی میں موجود سینئر قیادت جس میں سابق سپیکر اسد قیصر، ملاکنڈ سے تیسری مرتبہ ایم این اے بننے والے جنید خان، عاطف خان، شہریار آفریدی سمیت درجنوں رہنماٗ سمجھتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ انھوں نے انتخابات سے پہلے ہی عمران خان سمیت مقتدر قوتوں کو اعتماد میں لے لیا تھا اور جہاں جہاں انکو مشکلات کا خدشہ تھا ان مشکلات کو نادیدہ قوتوں کے ذریعے آسان بنادیا گیا۔ مثلا وزیر اعلی شپ کے لئے پی ٹی آئی کے مضبوط امیدوار عاطف خان اور شہرام ترکئی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دلوانا، مثلا دوسرے نمبر پر مضبوط امیدوار اور تجربہ کار شخصیات تیمور سلیم جھگڑا اور کامران خان کو ساز باز کرکے اسمبلی پہنچنے ہی نہیں دینا۔ اسی طرح مشتاق غنی سمیت کئی بااثر اور تجربہ کار لوگوں کو وزارتیں نہ دینا بھی انکی اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔

اب حقیقی صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعلی علی امین گنڈاپور بیک وقت دو کشتیوں کی سواری کر رہا ہے۔ ایک طرف آگ اور پانی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔اور پانی کو یقین دلاتا ہے کہ میں آگ کو مزید پھیلنے نہیں دوں گا۔ دوسری طرف آگ کو بھڑکتا ہوا رکھنے اور عوام میں اپنا غصیلہ اور جارحانہ تاثر قائم رکھنے کے لئے وفاقی حکومت کے خلاف حزب اختلاف بن جاتا ہے۔ میڈیا کے سامنے اور سٹیج پر کھڑے ہوکر چھین لوں گا مٹا دوں گا قبضہ کروں گا جیسے الفاظ کا استعمال انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مگر وہ اردو کا ایک محاورہ ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟

اب پارٹی کی سینئر قیادت کے بعد انکے اپنے وزراٗ کھل کر سامنے آگئے ہیں انکی دورنگی اور کھل کر کرپشن کے خلاف عمران خان سمیت تمام قوتوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض تجربہ کار دوستوں کا خیال ہے کہ وہ جس دیانت داری کیساتھ بد دیانتی کا پیسہ اوپر تک پہنچاتا ہے شاید انکو ہٹانا آسان نہ ہو۔ مگر میرے خیال میں صوبے میں بڑھتی ہوئی بد امنی، کرپشن بد انتظامی اور اس پر مستزاد پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ اسکو ہٹانے کاکام آسان کرسکتا ہے۔ کیا کوئی فارورڈ بلا ک بنکر عدم اعتماد لایاجائے گا یا پھر گورنر راج نافذ کرکے اسکی چھٹی کردی جائے گا۔ یا پھر 9 مئی واقعات میں انکی ضمانت کینسل ہوسکتی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts