GHAG

ممتاز تجزیہ کاروں کا عزم استحکام پر ردعمل اور تجاویز

عقیل یوسفزئی

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے متعدد نامور اور قابل اعتماد صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے صوبے میں دہشت گردی کی جاری لہر کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بعض سیاسی اور صحافتی حلقے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے صورتحال کا ادراک کیے بغیر انسداد دہشتگری کی حالیہ کوششوں کو متنازعہ بنانے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے حالیہ فیصلوں کی من پسند تشریح میں مصروف عمل ہیں ۔

ممتاز صحافی اسماعیل خان نے اس ضمن میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگست 2021 کو جب افغان طالبان نے اقتدار سنبھالا تو وہ بعض اسباب کے تناظر میں پاکستان کی توقعات پر پورے نہیں اترے اور تعلقات میں اس وقت شدید کشیدگی پیدا ہوئی جب ٹی ٹی پی نے پاکستان پر حملوں کی تعداد اور شدت میں بے پناہ اضافہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا پر چڑھائی کی ۔ ان کے مطابق عمران خان کی حکومت میں ایک مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا مگر وہ ناکامی سے دوچار ہوا اور حملے مزید تیز ہوگئے ۔ ٹی ٹی پی کی بے دخلی کے معاملے پر افغان عبوری حکومت ایک حد سے آگے نہیں جاسکتی کیونکہ دونوں نہ صرف نظریاتی ہم آہنگی رکھتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی امریکہ اور سابق افغان حکومتوں کے خلاف افغان طالبان کے ساتھ ملکر لڑتی بھی رہی ہے ۔ اسماعیل خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بعض پارٹیاں دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی اجلاسوں میں ایک موقف اختیار کرتی رہی ہیں جبکہ عوام ، کارکنوں کو باہر آکر دوسری بات کررہی ہوتی ہیں ۔ جو لیڈرز نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں ان میں سے اکثر کو شاید اس کے تین چار نکات خود بھی معلوم نہیں ہو ۔ ان کے بقول عزم استحکام کی مخالفت اس لیے بھی کی جارہی ہے کہ بعض پارٹیاں ملٹری اسٹبلشمنٹ سے الیکشن وغیرہ کے معاملات پر اس کی آڑ میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں تاہم ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں حالات واقعی بہت خطرناک شکل اختیار کرگئے ہیں اور یہ سلسلہ بوجوہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔

اسلام آباد میں مقیم باخبر خاتون صحافی سمیرا خان نے اس ضمن میں ” ایف ایم سنو پختونخوا ” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عزم استحکام کی نہ صرف غلط اور نامکمل تشریح کی جارہی ہے بلکہ بعض سیاسی اور صحافتی حلقوں نے ایک پروپیگنڈا کے تحت اس کو متنازعہ بنانے کی پالیسی بھی اختیار کررکھی ہے حالانکہ یہ پہلے سے جاری ان فوجی اور حکومتی سلسلے کا ایک توسیعی مگر ہمہ جہت پلان ہے جو کہ دہشتگری ، شدت پسندی ، اسمگلنگ ، منی لانڈرنگ اور بد انتظامی کے خلاف جاری ہے ۔ اب کے بار جہاں اس کا دائرہ کار بڑھایا گیا ہے وہاں دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مذاکرات وغیرہ کو کلی طور پر مسترد کرتے ہوئے زیرو ٹاولرنس کی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور حالات کا تقاضا یہ ہے تمام اسٹیک ہولڈرز اپیکس کمیٹی کے فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ سمیرا خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بعض سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے حلقوں نے عزم استحکام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کو کنفیوژن سے دوچار کیا ہے تاہم اقدامات ہوں گے ہی اور ایسے عناصر کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا ۔

سینئر صحافی شمس مومند کے مطابق متعلقہ ریاستی اداروں نے بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ نہ تو متاثرہ علاقوں کے عوام کو بے گھر کیا جائے گا اور نہ ہی پہلے کی طرح دیگر مشکلات پیدا کی جائیں گی ۔ ان کے مطابق اگر سوچا جائے تو آپریشن ردلفساد کی نوعیت اور پلاننگ بھی اسی ماڈل پر مشتمل تھی ۔ شمس مومند کے بقول عزم استحکام کا کردار اور دائرہ کار محض عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں تمام کمزوریوں کا ادراک کرتے ہوئے تمام اداروں ، سیاسی قوتوں اور میڈیا کو ان کا فعال کردار ادا کرنے کا فریم ورک موجود ہے اس لیے مخالفت برائے مخالفت کی بجائے تعاون اور اشتراک عمل کا راستہ اختیار کیا جائے ۔

کالم نگار اور صحافی آصف نثار غیاثی نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کھلے عام پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور ساتھ میں فیک نیوز وغیرہ کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم جوئی بھی جاری ہے ۔ اس صورتحال پر مزید خاموش نہیں رہا جاسکتا اس لیے ریاست کو واضح اور جارحانہ طرزِ عمل اختیار کرنا پڑے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts