گذشتہ تین روز سے خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس جاری رہا جس کا واحد مقصد پی ٹی آئی کی سیاسی جماعت اپنے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کے اس بیان کو درست ثابت کرنا تھا کہ وہ 12 اضلاع سے ہوتا ہوا پشاور پہنچا۔ بدقسمتی سے صوبائی پارلیمانی جرگہ، جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والا سب سے بڑا آئینی فورم ہے، کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ستم در ستم یہ کہ گذشتہ روز ایک حکومتی اور ایک اپوزیشن ایم پی اے کے درمیان جو کچھ ہوا، ہم اس سے پہلے سوڈان کی اسمبلی میں دیکھ چکے ہیں۔ عوام نے کیمروں کے ذریعے دیکھا کہ دونوں اطراف کے حامیوں نے ایک دوسرے پر لاتوں اور مکوں سے حملہ کیا۔ہنگامہ آرائی کے دوران وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے اقبال وزیر اور تحریک انصاف کے نیک محمد کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی، دونوں ارکان اسمبلی کے حامیوں نے ایک دوسرے پر لاتوں اور گھونسوں سے حملے کیے، حالات پر قابو پانے کے لیے اسپیکر نے اجلاس 15 منٹ کے لیے معطل کیا، اس دوران سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی طلب کیا گیا۔
یہ حالت ہم اس ہاؤس میں دیکھ رہے ہیں جہاں عوام کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے ہر اجلاس پر خرچ کئے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عوام کی فلاح و بہبود، ترقی یا سہولیات کے حوال سے ایک بھی بات نہیں ہوتی۔ کیا عوام یہ سوال نہیں کرسکتے کہ انکے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والا یہ نظام انہیں کیا سہولیات فراہم کررہا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکن آج بھی یہ سوال کررہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنی لیڈرشپ پر سخت تنقید کررہے ہیں کہ احتجاج کو لیڈ کرنیوالا وزیراعلیٰ کس طرح چھپ کر “12 اضلاع” (انکے بقول) سے ہوتا ہوا اچانک پشاور میں کس طرح نمودار ہوا۔ تین دن سے وزیراعلیٰ بھی کوشش کررہا ہے کہ کارکنان کو مطمئن کریں لیکن تادم تحریر کارکنان مطمئن نہیں۔ گذشتہ روز اجلاس میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر احمد کریم کنڈی نے بھی یہ نکتہ اٹھایا کہ وزیراعلیٰ پہلے 12 اضلاع ثابت کریں تاکہ اراکین اور انکے اپنے کارکنان مطمئن ہوسکے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے باتیں تو کی جاتی ہیں لیکن دہشت گردی سے متاثرہ اور سب سے زیادہ قرضدار صوبے کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات کا رونا رورہے ہیں۔ کچھ اطلاعات یہ ہیں کہ خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ (لیڈی ریڈنگ ہسپتال) میں انٹی بائیوٹک ختم ہوچکے ہیں، عام پرچی 20 روپے سے بڑھا ک 50 کردی گئی، وارڈ میں داخلے کی فیس 200 سے بڑھا کر 850 کردی گئی، ہسپتال کے اندر دوائیاں یا انجکشن تو دور کی بات لیبارٹری ٹیسٹ کیلئے درکار سامان بھی باہر فارمیسی سے خریدنا پڑ رہا ہے لیکن خیبرپختونخوا کی حکومت کا واحد مقصد اپنے لیڈر کی رہائی اور انکے لئے آواز اٹھانا ہے، عوام انکی ترجیح ہی نہیں۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر کوئی انکی ترجیحات میں شامل نہیں، اگر ایک حکومت انہیں سہولیات فراہم نہیں کررہی، تو ان کا فیصلہ کیا ہونا چاہیئے۔