GHAG

پاراچنار کے محاصرے سے صوبائی حکومت کی لاتعلقی

حیدر جاوید سید

پارا چنار کا مکمل محاصرہ 12 اکتوبر 2024ء سے جاری ہے، حالیہ تنازع رواں سال ستمبر میں شروع ہوا تھا۔ اکتوبر میں سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں پارا چنار سے پشاور جانے والے مسافر کانوائے پر بگن کے مقام پر مسلح افراد نے حملہ کیا اس میں درجنوں مرد و زن اور بچے جاں بحق ہوگئے۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے پارا چنار محاصرے کو 80 دن مکمل ہوگئے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ 12 اکتوبر کو شروع ہونے والا محاصرہ نئے سال کے آغاز پر بھی برقرار رہے گا۔

پارا چنار کے حالیہ تنازع، محاصرے ا ور 15 دن سے جاری دھرنے کا تجزیہ کرنے والوں میں سے بہت کم لوگوں کو حقیقت حال معلوم ہے۔ زیادہ تر صاحبان دور کی کوڑی لائے کہ پارا چنار ماضی میں طالبان کے لئے لانچنگ پیڈ رہا ہے۔ اس میں رتی برابر صداقت نہیں، البتہ پارا چنار کو سابق غیربندوبستی (قبائلی علاقوں میں جو اہمیت حاصل ہے، یہ اہمیت ہی اس کی دشمن ہے۔ امریکہ یہاں ایئربیس بنانا چاہتا ہے، یہ رائے حال ہی میں سامنے آئی۔ تو کیا امریکہ پارا چنار کے اہل تشیع کے مخالف مقامی قبائل اور ضلع کرم میں اڑھائی ماہ سے موجود  غیرمقامی جنگجوئوں کی سرپرستی کررہا ہے؟

یہ مقام افغانستان کے لئے لانچنگ پیڈ کے طور پر افغان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ، جسے ہمارے ہاں جہادی کاروبار کے طرز پر فروغ حاصل ہوا، ضرورت تھا اس وقت پارا چنار واسیوں کو ایک طرف فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ریاستی جبروستم کا سامناکرنا پڑا تو دوسری جانب فضل الرحمن خلیل اور سیف اللہ خالد کی مسلح تنظیموں (دونوں تنظیموں کا تعلق ایک خاص مسلک سے تھا) کی ناراضگی کا بھی سامناکرنا پڑا۔

 اس امر پر دو آراء نہیں کہ ضلع کرم کے پارا چنار میں مختلف العقیدہ قبائل کے درمیان ذاتی رنجشوں اور مقامی تنازعات کو بھی  فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ رنگ کون دیتا ہے؟ آزاد تجزیہ نگار بھی اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لے پاتے۔

ماضی کو اٹھا رکھئے، حالیہ تنازع اور بالخصوص بگن میں پارا چنار سے پشاور جانے والے مسافر کانوائے کے مسافروں کے قتل عام کے بعد کیا انجمن حسینیہ پارا چنار نے دوسرے علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا میں موجود ہم عقیدہ لوگوں کو مسلح ہوکر اپنی مدد کے لئے آنے کی دعوت دی یا بگن میں مسافروں کا قتل عام کرنے والے مسلح دہشت گردوں نے ہنگو، ٹل اور کوہاٹ کے ساتھ پارا چنار اور افغان سرحد کے درمیان آباد ہم خیال لوگوں کو پارا چنار پر لشکرکشی اور ان کے لئے ضروریات زندگی کے حصول کا ہر راستہ بند کرنے کی اپیل کی؟ پھراس اپیل کے  حق میں فتووں  کا اجراء بھی ہوا۔ صرف اس ایک نکتے پر ٹھنڈے دل سے غور کی زحمت پر ایک سے زائد سوالات کا جواب آسانی کے ساتھ مل جاتا ہے۔

80 دن کے محاصرے اور 15 دن سے جاری پارا چنار دھرنے میں سب سے زیادہ شرمناک کردار خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا ہے۔ اس حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے اتحادی سینیٹر راجہ ناصر عباس جعفری اور ان کے ہم خیال روزانہ کی بنیاد پر لٹھ لئے وفاقی حکومت پر چڑھ دوڑتے ہیں لیکن ایک بار بھی انہوں نے بگن میں موجود غیرمقامی مسلح جتھوں کے سب سے بڑے سہولت کار مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف کی برطرفی کا مطالبہ کیا نہ صوبائی حکومت کو موجودہ صورتحال کا  مجرم ٹھہرایا۔

پارا چنار کا حالیہ تنازعہ ستمبر 2024ء میں شروع ہوا تھا۔ اکتوبر اور نومبر میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور دو بار پشاور سے اسلام آباد چڑھائی کے لئے نکلے۔ پی ٹی آئی کے اتحادی سینیٹر راجہ ناصر عباس جعفری دونوں مرتبہ کی لشکر کشی کے مراحل میں جذباتی انداز میں حکومت وقت کو یزیدیت کی نشانی ثابت کرتے دکھائی دیے لیکن انہوں نے علی امین گنڈاپور سے یہ سوال کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ صوبے میں امن و امان برقرار رکھنے اور بالخصوص پاراچنار میں غیرمقامی مسلح جتھوں کے ستائے ہوئے لوگوں کی دادرسی پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟

آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ پارا چنار تنازعہ میں سب سے مشکوک کردار خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا ہے۔ 30 دسمبر 2024ء کو انہوں نے لگ بھگ تیسری بار اس موقف کا اعادہ کیا کہ ’’جب تک جرگے میں سمجھوتہ نہیں ہوتا حکومت سڑک نہیں کھولے گی‘‘، اس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہوا کہ صوبائی حکومت سڑک کھلوانے اور محاصرہ ختم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے مگر وہ یا بیرسٹر سیف چاہتے ہیں کہ بگن میں موجود غیرمقامی جنگجوؤں کی ناک نیچی نہ ہونے پائے۔

 یہاں یہ یاد دلانا بھی ازبس ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا کو آج جس طالبانائزیشن کا پھر سے سامنا ہے اس کی ذمہ دار سینیٹر راجہ ناصر عباس جعفری کی اتحادی جماعت پی ٹی آئی ہے۔ کابل مذاکرات باضابطہ طور پر  2021ءمیں شروع ہوئے تھے۔ تب عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض ایک پیج پر تھے، البتہ ان مذاکرات کے لئے ستمبر 2020ء سے رابطے جاری تھے اور رابطہ کار کے فرائض بیرسٹر سیف ادا کررہے تھے جو نہ صرف خود پرانے جہادی ہیں بلکہ ان کا خاندان طالبان جہادیوں کا قدیم مربی ہے۔

اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں بگن اور گردونواح میں کالعدم ٹی ٹی پی، کالعدم لشکر جھنگوی، رواں برس کے اوائل میں منظرعام پر آنے والی تحریک المجاہدین کے علاوہ مسلح افغان جنگجو جن میں سے زیادہ تر کا تعلق منگل قبیلے سے ہے موجود ہیں۔

 گزشتہ تین جمعتہ المبارک کے دوران ان جنگجوؤں کے ہم خیال مولوی حضرات نے ٹل، ہنگو اور خود ضلع کرم میں جمعہ کے اجتماعات سے خطابات کے دوران بگن میں موجود مسلح جنگجوؤں کو لشکر اسلام کے طور پر پیش کرکے جس طرح لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا اس پر صوبائی حکومت نے کیا کارروائی کی؟

اب آیئے پارا چنار دھرنے سے یکجہتی کے لئے ملک بھر میں جاری دھرنوں کی طرف۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت پشاور میں پشاور کلب کے قریب ایک سڑک کے کنارے پر دھرنا اس طرح موجود ہے کہ ٹریفک بھی چل رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دھرنا دو دن جاری رہا، اس کے اچانک ختم کردیے جانے کی جو وجوہات مجلس وحدت المسلمین  ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے صدر سید غضنفر نقوی نے ویڈیو پیغام میں بیان کی ہیں پتہ نہیں انہیں سن کر کسی کو شرم بھی آئی یا نہیں۔ لاہور میں یکجہتی دھرنا، پریس کلب کے قریب موجود ہے، ملتان میں نواں شہر چوک میں۔کراچی میں گذشتہ صبح تک 10 سے زائد مقامات پر یکجہتی دھرنے تھے سندھ حکومت، کراچی پولیس اور ایم ڈبلیو  ایم کے درمیان پچھلے تین دن سے جاری بیک ڈور رابطوں کے بعد مذاکرات کے نتیجے میں سات مقامات پر سے دھرنے ختم کردیئے گئے جبکہ نمائش چورنگی کے مرکزی دھرنے کے ساتھ دو مزید مقامات کامران چورنگی اور نزد سفاری پارک والے دھرنے جاری رہیں گے۔ 30 دسمبر کی شام ہی ایم ڈبلیو ایم کے سینیٹر راجہ ناصر جعفری نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’راستے بند کرنا غلط ہے میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں دھرنا جاری رکھیں مگر راستے بند نہ کریں‘‘۔

کراچی میں نمائش چورنگی کے مرکزی دھرنے کے بعد اچانک شہر میں 10 سے زائد مقامات پر دھرنا دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس پر مختلف آراء بھی سامنے آئیں ان میں سے ایک انچولی سے تعلق رکھنے والے ابو ہاشم کے قتل کا معاملہ بھی تھا دھرنوں کے حامیوں نے ابو ہاشم والے معاملے کو سازشی تھیوری قرار دیا۔ لیکن بات اتنی سادہ بھی ہرگز نہیں تھی بہرطور یہ ہمارا موضوع نہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ نمائش چورنگی کے مرکزی دھرنے کے حق میں کراچی کے مختلف الخیال طبقات کی ہمدردیاں موجود تھیں پھر اس سے ہٹ کر دس سے زائد مقامات پر دھرنے دینے کا فیصلہ کیوں ہوا؟ سید شہنشاہ نقوی نے یہ کیوں کہا کہ کراچی ایئرپورٹ اس وقت تک بند ر ہے گا جب تک پارا چنار کا ر استہ نہیں کھل جاتا؟

کراچی میں تقریباً درجن بھر سے زائد مقامات پر دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے شہری و دیگر مسائل کو چھوڑیئے کیا اس فیصلے سے ہمدردیوں کا دائرہ وسیع ہوا یا تنقید کا؟ محض یہ کہہ کر دینا کہ انجمن سپاہ صحابہ  کی جانب سے جوابی دھرنوں کا اعلان حوالدار بشیر کے ایزی لوڈ کا نتیجہ ہے، درست نہیں۔ حوالدار بشیر تو کبھی راجہ صاحب کو بھی بہت محبوب ہوا کرتا تھا۔ یہاں کون ہے جو حوالدر بشیر کے ایزی لوڈ کا اسیر نہیں ؟

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے محصورین پارا چنار کے لئے سماج کے مختلف طبقات میں موجود ہمدردیاں کم ہوں۔ اسی طرح  اصل مجرم خیبر پختونخوا کی حکومت کو محفوظ راستہ نہیں دینا چاہیے۔ وفاق پر تنقید کا حق ضرور استعمال کیجئے لیکن 18ویں ترمیم ضرور پڑھ لیجئے، صوبائی حکومت کے بلائے بغیر وفاقی سکیورٹی فورسز کردار ادا نہیں کرسکتی۔

ایک سوال ہے وہ یہ کہ پشاور میں دیے جانے والے دھرنے کو کراچی کے دھرنوں کی طرح مرکزیت کیوں حاصل نہیں ہوسکی؟ حرف آخر یہ ہے کہ جب تک خیبر پختونخوا حکومت کی منافقت اور بگن میں موجود جنگجوؤں کے لئے صوبائی حکومت کے اندر سے سہولت کاری جاری رہے گی، پارا چنار کا مسئلہ عوامی و علاقائی مفادات کے تحت حل نہیں ہوگا۔

(2 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts