سال 2022ء کے دوران جب پاکستان کے اندر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور پارٹی کے سربراہ عمران خان پر مختلف نوعیت کے مقدمات قائم کیے گئے تو پاکستان تحریک انصاف مزاحمت پر اتر آئی اور اس کی مزاحمت کا مرکز جنگ زدہ خیبرپختونخوا رہا کیونکہ اس صوبے میں سال 2013 کے بعد اس پارٹی کی حکومت تھی جس کو سیاسی حلقوں میں پرو طالبان حکومت کا نام دیا گیا تھا۔ اس پارٹی کے مرکزی چیئرمین عمران خان نے متعدد بار نہ صرف یہ بات آن دی ریکارڈ کہی تھی کہ پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں بلکہ ان کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی کہا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کو باقاعدہ دفاتر قائم کرنے کے حق میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے دور حکومت میں پاکستانی اور افغان طالبان کے نظریاتی مرکز جامعہ حقانیہ (اکوڑہ خٹک) کو کروڑوں روپے کا گرانٹ دیا تھا جس پر مخالف سیاسی پارٹیوں نے شدید تنقید کی۔
سال 2014ء کو جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ کیا گیا تو اس وقت مرکز میں میاں نواز شریف اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ اسی سلسلے میں جب عمران خان آرمی پبلک اسکول کے دورے پر آئے تو شہیدوں کے رشتے داروں نے ان کو اس واقعے کا زمہ دار قرار دیتے ہوئے شدید نوعیت کا ردعمل دکھایا۔ اسی روز پشاور میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت تمام سیاسی قائدین اور اسٹیک ہولڈرز کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی اور اسی روز پاکستان کے آرمی چیف اور آیی ایس آئی کے سربراہ کابل چلے گئے کیونکہ اس حملے کی پلاننگ افغانستان میں کی گئی تھی۔ اس افسوسناک واقعے کے باوجود تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ٹی ٹی پی کے معاملے پر اسی طرح مصلحت سے کام لیتی رہی جس طرح ایم ایم اے نے لیا تھا۔
دوسری جانب جب اس واقعے کے نتیجے میں عمران خان نے اسلام آباد دھرنا ختم کردیا اور بعد میں پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان پہلے والا رومانس مدھم پڑ گیا تو تحریک انصاف کے متعدد صوبائی وزراء اور لیڈروں کو نجی محفلوں میں یہ سنتے پایا گیا کہ اس خوفناک حملے میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں ملوث ہیں تاکہ دھرنے کا خاتمہ کیا جاسکے۔ یہ بات اس کے باوجود پارٹی اور صوبائی حکومت کی جانب سے عوام اور متاثرین میں بطورِ پروپیگنڈا پھیلادی گئی کہ اس حملے میں دوسروں کے علاوہ پاکستان فوج کے اہم افسران کی دو بیویوں سمیت متعدد بچے بھی شہید ہوگئے تھے اور بعد میں متعدد افسران کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔
یہ وہ پہلا پروپیگنڈا میٹریل تھا جو کہ پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف استعمال کیا گیا اور جب اس خطرناک پروپیگنڈا کا بوجوہ کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا تو اس کے مختلف مظاہر پھر سب نے مختلف اوقات میں بھگتے اور یہ سلسلہ 9مئی کے ان واقعات تک پہنچ گیا جب اس پارٹی نے نہ صرف یہ کہ کور کمانڈر ہاؤس سمیت درجنوں ملٹری تنصیبات کی تباہی کا راستہ ہموار کیا بلکہ ان واقعات کے بعد لمبے عرصے تک آرمی پبلک اسکول کے بیانیہ کے طرز پر یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ ان واقعات میں بھی انٹلیجنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔
7 مارچ 2024ء کو عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور یہ کہ وہ ان واقعات میں ملوث نہیں ہیں۔ یہی مطالبہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں اس پارٹی کے نئے مقرر کیے جانے والے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بھی 4 مارچ کو میڈیا ٹاکس کے دوران کیا ہوا تھا حالانکہ جس وقت وہ وزیراعلیٰ کا حلف اٹھارہے تھے اس وقت ان پر دہشت گردی کے 3 مقدمات کے علاوہ مختلف نوعیت کے تقریباً 2 درجن مقدمات درج تھے اور ان کی کابینہ کے تقریباً 19 ارکان کو بھی ایسے ہی مقدمات کا سامنا تھا۔ یہ سب ضمانتوں پر تھے۔
9مئی کے واقعات کے بعد جب حساس اداروں نے تحقیقات شروع کیں تو پتہ چلا کہ پشاور سمیت پختونخوا اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں ہونیوالے حملوں میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان اور بعض افغان گروپوں کے افراد نے بھی حصہ لیا۔ اس ضمن میں طالبان کے ایک گروپ کے ترجمان سربکف مہمند نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے بعض لوگ ان حملوں میں شامل تھے۔
عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب عمران خان کے نمبر2 مراد سعید نے کھلے عام کہنا شروع کردیا کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ایک سازش کے تحت سوات میں پھر سے طالبان کو لانچ کیا ہے حالانکہ جس وقت موصوف یہ الزامات لگارہے تھے اس وقت خیبرپختونخوا میں ان کے نامزد کردہ محمود خان وزیراعلیٰ تھے اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نہ صرف اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کے تناظر میں افغانستان میں طالبان قیادت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف عمل تھے بلکہ اسی سوات پر جب وزیراعلیٰ اور مراد سعید کے حلقوں میں طالبان کے ایک گروپ نے حملے شروع کئے تو بیرسٹر سیف نے آن دی ریکارڈ موقف اختیار کیا کہ حملہ آور اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے تھے۔ اس بیان پر شدید سیاسی اور عوامی ردعمل سامنے آیا تاہم وہ مراد سعید کے بیانات اور الزامات کے باوجود نہ صرف طالبان کا دفاع کرتے رہے بلکہ انہوں نے مذاکرات کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک جنرل باجوہ آرمی چیف رہے۔
9مئی کے واقعات کے ماسٹر مائنڈز کے طور پر خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کے دو اہم لیڈرز سامنے آئے۔ ایک مراد سعید تھے اور دوسرے علی امین گنڈاپور۔ تاہم عمران خان نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد اسی علی امین گنڈاپور کو صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کیا۔ موصوف نے اپنی پہلی تقریر میں 9 مئی کے واقعات میں ملوث اپنی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کرنے والے پولیس آفیسرز کو کھلے عام دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر جھوٹے مقدمات واپس نہیں لیے گئے تو پولیس افسران اور بیوروکریسی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یہاں یہ بات بھی قابل حیرت رہی کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد متعدد اہم لیڈرز سمیت بعض مطلوب کارکنوں کے بارے میں اس قسم کی رپورٹس ملتی رہیں کہ انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے افغان اور پاکستانی طالبان کی باقاعدہ سہولت کاری کے باعث افغانستان کے بعض سرحدی علاقوں کے علاوہ کابل اور جلال آباد جیسے اہم شہروں میں مہینوں تک پناہ لے رکھی تھی اور جب 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں خیبرپختونخوا ایک بار پھر ان کی حکومت قائم ہوئی تو یہ پشاور منتقل ہونا شروع ہوئے۔ سال 2023 کے آخری مہینوں میں پاکستان کی بارڈر سیکیورٹی فورسز نے طورخم بارڈر پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے کو اس وقت گرفتار کرلیا جب وہ پناہ لینے سرحد پار کررہے تھے۔ متعدد دیگر کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی۔
یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ مراد سعید بھی اس کے باوجود افغانستان میں ہیں کہ وہ بظاہر ٹی ٹی پی کے خلاف بیانات دے رہے تھے۔ اس رویہ کے بارے بعض معتبر حلقے یہ دلیل دیتے رہے کہ یہ سب ایک پلان شدہ ڈرامہ تھا جس کا مقصد پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف یہ تاثر بنانا تھا کہ وہ دہشت گردی کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اس پروپیگنڈا کو افغان حکومت اور طالبان کے علاوہ تحریک طالبان کی زبردست سرپرستی بھی حاصل رہی اور مراد سعید، دیگر کے ریاست مخالف بیانات ان کے آفیشل اکاؤنٹس سے شیئر کیا جاتا رہا۔ اس مہم کے دوران متعدد بار مختلف مواقع پر بنگلہ دیش میں پاکستان کی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے واقعے کو بھی پوری شدت کے ساتھ دو طرفہ طور پر سوشل میڈیا کی “زینت” بنایا گیا۔
دسمبر 2023 میں سقوط ڈھاکہ کے واقعے کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف، تحریک طالبان پاکستان، پی ٹی ایم، افغان طالبان اور بعض دیگر قوم پرستوں نے دو تین دنوں تک سوشل میڈیا پر باقاعدہ ٹرینڈز چلاتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور لاکھوں لوگوں نے اس مہم میں حصہ لیا۔ اس مہم کو بھارتی اور امریکی میڈیا نے اپنی نشریات کا حصہ بنادیا۔
اسی دوران جب پاکستان نے یہاں موجود غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کیا تو تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان اور پی ٹی ایم وغیرہ کی طرح تحریک انصاف نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ عمران خان نے جیل سے ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں اس پراسیس کی شدید مخالفت کی گئی۔ ان کے اس بیان کا نہ صرف تحریک طالبان پاکستان نے بلکہ افغان طالبان نے بھی آن دی ریکارڈ خیرمقدم کیا بلکہ 2024 کے انتخابی عمل میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے حق میں باقاعدہ مہم چلائی گئی اور بعض بااثر افغانوں نے اس پارٹی کے امیدواروں کی فنڈنگ بھی کی۔ اس دوران یہ رپورٹس بھی ملتی رہیں کہ تحریک انصاف کے متعدد اہم لیڈرز نے افغان عبوری حکومت کی مدد سے یو اے ای اور بعض دیگر ممالک کا 9 مئی کے واقعات کے بعد سفر بھی کیا۔
اس تمام صورتحال سے ماہرین یہ نتیجہ اخذ کرتے رہے کہ اس تمام گیم کے دوران پاکستان تحریک انصاف، ٹی ٹی پی ، افغان طالبان اور بعض پشتون، بلوچ قوم پرست پاکستان کی طاقتور اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف ایک صفحے پر اکھٹے نظر آئے اور ان سب کو اس معاملے میں بعض اہم ممالک کی باقاعدہ سرپرستی حاصل رہی۔ اس “اتحاد” نے ریاست پاکستان کو شدید نوعیت کے دباؤ سے دوچار کیا اور پاکستان کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے ہوئے۔ بھارتی میڈیا اس دوران مسلسل یہ بیانیہ تشکیل دیتا رہا کہ جو مقاصد بھارت سرکاری اور سیاسی طور پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پاکستان کے خلاف حاصل نہیں کر سکا وہ ان کے بقول عمران خان اور طالبان وغیرہ چند مہینے میں کامیابی سے سرانجام دینے میں کامیاب ہوئے۔ جرنیل لیول کے بھارتیوں نے عمران خان کو بھارت کا ہیرو قرار دیتے ہوئے اپنی حکومت کو مین سٹریم میڈیا پر مشورے دیے کہ وہ تحریک انصاف اور ٹی ٹی پی جیسی قوتوں کی معاونت کریں کیونکہ ان کے بقول یہ دو تین قوتیں پاکستان کو توڑنے اور تقسیم کرنے کی کامیاب “مہم جوئی” میں مصروف عمل ہیں۔