اے وسیم خٹک
تحریک انصاف کے حالیہ نعرے “گولی کیوں چلائی؟” نے سیاسی مباحث میں ایک نیا رخ پیدا کیا ہے۔ یہ نعرہ مراد سعید، شاہد خٹک اور مینا خان آفریدی جیسے رہنماؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔ مراد سعید، جو 9 مئی کے واقعات کے بعد روپوش ہیں، کے اکاؤنٹ سے بھی یہ نعرہ شیئر ہو رہا ہے۔ شاہد خٹک اور مینا خان آفریدی، جو مراد سعید کے قریبی ساتھی ہیں، بھی اس مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات پر یہی سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟
2020ء میں تحریک لبیک پاکستان نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا۔ ان مظاہروں کو قابو میں لانے کے لیے ریاست نے طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کئی جانیں گئیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس وقت اسے امن و امان بحال کرنے کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ آج وہی جماعت “گولی کیوں چلائی؟” کا نعرہ لگا رہی ہے، لیکن اس وقت ان کا مؤقف مختلف تھا۔
نو مئی 2023 کو ملک کے اہم اداروں اور قومی املاک پر حملے ہوئے۔ جی ایچ کیو، ریڈیو پاکستان پشاور اور دیگر مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ واقعات ریاستی رٹ کو براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف تھے۔ ان مظاہروں پر تحریک انصاف کی قیادت نے خاموشی اختیار کی اور کوئی واضح مذمت نہیں کی۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سختی کی، تو “گولی کیوں چلائی؟” کے نعرے کے ذریعے مظلومیت کا بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
پشاور میں اساتذہ کے احتجاج کے دوران شیلنگ کا واقعہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں پیش آیا۔ اس وقت کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ طاقت کا استعمال کیوں کیا گیا۔ آج جب خود پر دباؤ آیا تو وہی لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کو جبر قرار دے رہے ہیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ جو نعرہ آج بلند کیا جا رہا ہے، وہ ماضی میں کیوں نظر انداز کیا گیا؟ ہر حکومت اپنے وقت میں طاقت کے استعمال کو ضروری قرار دیتی ہے، اور اپوزیشن میں آ کر مظلومیت کا بیانیہ اپناتی ہے۔ یہ دوہرے معیار نہ صرف عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں بلکہ سیاسی قیادت کی سنجیدگی پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔
اگر واقعی یہ نعرہ اصولی بنیادوں پر اپنایا گیا ہے تو اسے ہر دور اور ہر حکومت کے لیے لاگو ہونا چاہیے۔ انصاف کا مطالبہ صرف اس وقت نہیں ہونا چاہیے جب خود کو نقصان پہنچے، بلکہ ہر اس موقع پر ہونا چاہیے جب ریاستی طاقت کا بے جا استعمال کیا جائے۔ اس کے بغیر یہ نعرہ صرف سیاسی موقع پرستی کی علامت بن کر رہ جائے گا۔