GHAG

پاکستان میں امن کی بحالی: ماضی، حال اور مستقبل

اے وسیم خٹک

پاکستان میں امن کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور سنگین معاملہ ہے جو کئی دہائیوں سے ملک کو درپیش ہے۔۔اگر تاریخ پر نظردوڑائی جائے تو ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی لہر کی شروعات 1980 کی دہائی میں ہوئی، جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو پاکستان کی سرزمین سے مدد فراہم کی گئی۔ یہ مسئلہ 1990 کی دہائی میں طالبان کی قوت میں اضافے اور افغانستان میں ان کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو شدید متاثر کیا جس کے بعد دہشت گرد گروہوں نے پاکستان میں اپنے قدم جمانا شروع کیے۔ نائن الیون کے بعد، امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو براہ راست متاثر کیا، کیونکہ دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا لیے۔اور پھر دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں حکومت پاکستان نے کئی اہم اقدامات کیے۔جن میں بہت سارے آپریشن شامل تھے جس کا ذکر پہلے ارٹیکل میں تفصیل کے ساتھ کیا جاچکا ہے ان آپریشنز میں آپریشن المیزان، آپریشن راہ راست، اور آپریشن راہ نجات شامل تھے۔اس کے علاوہ حکومت نے انتہا پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی اور ان کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مدرسوں کی نگرانی اور ان کی اصلاحات کے لیے اقدامات کیے گئے تاکہ انتہا پسندی کے نظریات کو روکا جاسکےسوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئےان سب کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ ملک میں امن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

جتنے بھی آپریشنز کئے گئے ان آپریشنز کا مقصد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا اور انہیں کمزور کرنا تھااب تک پاکستان اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے اور حالیہ ہونے والے واقعات سے لگتا ہے کہ یہ نقصان اٹھانے کا عمل ابھی جاری وساری ہے ۔ دہشتگردی کے ہونے والے واقعات میں ہمارے جوان جان سے جارہے ہیں ۔ جو کہ ہمارا سب سے بڑا نقصان ہے ۔ اس لئے ہماری معیشت سنبھل نہیں رہی دوسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے اور معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے اور امن کی بحالی کے لئے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ ملک میں مضبوط جمہوری نظام، شفاف انتخابات، اور اقتصادی مواقع کی فراہمی دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کے مسائل حل کیے جائیں اور انہیں بہتر روزگار اور تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ ہیں مگر ان میں شعور کی کمی ہے اور امن لانے کے لئے صرف تعلیم ہی نہیں شعور کا فروغ لازمی ہوتاہے جو امن کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عوام کو تعلیم یافتہ بنا کر اور انہیں انتہا پسندانہ نظریات سے بچا کر معاشرے میں امن کی فضا قائم کی جاسکتی ہےکچھ عرصہ قبل پیغام پاکستان کے نام سے یونیورسٹیوں میں ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا جس میں یونیورسٹیوں میں پروگرام کا انعقاد کیا جاتا تھا جس میں طلبہ کو بتایا جاتا تھا کہ ملک میں جاری دہشت گردی سے نمٹنا صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ عام لوگوں کا بھی کام ہے کہ وہ بھی اس میں حکومت کا ساتھ دیں اور ان پروگراموں کا انعقاد ایک اچھی کوشش ہے۔اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کے خلاف لڑائی میں بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

ایران، چین، انڈیا، روس اور افغانستان کے ساتھ ہماری سرحدیں ملتی ہیں ۔مگر ان سب ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اس نہج کے نہیں جس سے امن کے قیام کے لئے کوششیں کی جائیں ان سب باتوں کے باوجود ملک میں امن کی بحالی ایک طویل اور مشکل عمل ہے، لیکن یہ ناممکن نہیں۔ ہمیں مضبوط عزم، بہترین حکمت عملی، اور عوام کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں، تو یقیناً ہم امن کی منزل کو حاصل کرسکتے ہیں۔ان سب حالات کو دیکھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، موجودہ چیلنجز کا سامنا کریں، اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کریں۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے ملک کو ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل دے سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts