روخان یوسفزئی
پشتو زبان کے معروف ترقی پسند شاعر،ادیب،نقاد،محقق،صحافی اور دانشور قلندر مومند کی”د عالمی ضمیر پہ نوم“ (عالمی ضمیر کے نام پر) ایک طویل نظم ہے جس میں انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنی قوم اور مسلمانوں کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جب بھی انسانوں پر کوئی افتاد پڑی ہے،کوئی ظلم ڈھایا گیا تو ہم نے ان مظلوم اقوام اور انسانوں کا ساتھ دیا ہے ان کی اخلاقی مدد کی ہے، ان کے حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھائی اور ان کے حق میں احتجاج کیا ہے۔مگر مذکورہ نظم کے آخری مصرعے بڑے دردناک اور شکوہ شکایت سے بھرے ہوئے ہیں۔کہتے ہیں
تر خپلہ وسہ د مظلوم پہ مرستہ ٹینگ ولاڑ یم
الجزائر وپوختئی وگورہ کشمیر سہ وائی
چہ نن پہ ما دہ نو پہ ما دہ پہ آرام پراتہ یئی
یہ د دنیا اولسہ تاسو تہ ضمیر سہ وائی
مفہوم ان اشعار کا یہ بنتا ہے کہ اپنے بس اور اختیار کے مطابق مظلوم کے ساتھ پکا کھڑا ہوں۔الجزائر سے پوچھیں یا کشمیر کو دکھیں،مگر جو آج مجھ پر آں پڑی ہے تو مجھی پر ہے آپ آرام سے بیٹھے ہو،اے دنیا کے اقوام آپ کو (اس طرز عمل پر) اپنا ضمیر کیا کہتا ہے؟
اور یہ شکایت اگر آج دنیا کے اقوام سے پاکستان کرے تو حق بجانب ہوگا کیونکہ کہ اس وقت وطن عزیز پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پرتشدد انتہاپسندی،شدت پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑرہا ہے جس میں ہزاروں قیمتی جانوں کا نزرانہ بھی پیش کیاہے اور ساتھ معاشی طور پر بھی بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز بھی جاری ہے۔آج بھی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں اب بھی پاکستان دے رہا ہے۔دیکھا جائے تو دنیا کے کسی دوسرے ملک نے دہشت گردی کے خلاف اتنی طویل جنگ لڑی ہے اور نہ ہی اتنی بیش بہا مالی وجانی قربانیاں دی ہیں۔آج بھی پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے نشانے پر ہے تاکہ سیکورٹی فورسز کا مورال گر جائے مگر ہماری فورسز بھی ان حالات کا مردانہ وار مقابلے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے اور پوری دنیا پاکستان کی یہ صورت حال اچھی طرح دیکھ رہی ہےکہ کس طرح وطن عزیز پرتشدد انتہاپسندی، فرقہ واریت،شدت پسندی اور دہشت گردی سے متاثر ہوا اور ہورہا ہے۔ مگر متاسفانہ امن دوست،ترقی یافتہ اور عالمی طاقتوں کا اس جانب طرز عمل اور رویہ قابل اعتراض ہے۔ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں امن قائم ہو،کہیں دہشت گردی کا خطرہ نہ ہو،بین القوامی سرمایہ کار بھی تب ہی ملک کا رخ کرتے ہیں جب ماحول ساز گار ہو۔
یہ بات تو طے ہے کہ اگر پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا تو آج معیشت کا بھی یہ حال نہ ہوتا۔دہشت گردوں نے ملک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہمیں حقائق ماننا پڑیں گے۔ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عالمی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ جس افغانستان کو سوویت یونین کے چنگل سے نکالنے کے لیے ہم نے قربانیاں دیں، وہ افغانستان آج ہمیں آنکھیں دکھارہا ہے، وہی آج ہمارے امن کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ سارے دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ بنا ہوا ہے، ہم افغانستان کو سوویت یونین کے چنگل سے نکالنے کے لیے فرنٹ لائن بنے۔ یہ پرائی جنگ ہم نے اپنے سر لے لی، نتیجہ کیا نکلا ؟ دنیا صرف ہمارا تماشہ دیکھ رہی ہے، دہشت گردی کی اس جنگ سے نکلنا اب ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بناہوا ہے۔
دہشت گردی کی اس عفریت سے کیسے نمٹا جائے ،ہماری کیا حکمت عملی ہونی چاہیئے؟ اس بارے میں بھی ہمارے ہاں یکجہتی اور باہم اتفاق کا فقدان نظر آرہا ہے اور یہی متضاد سوچ اور فقدان دہشت گردوں کو بھرپور تقویت دے رہی ہے۔اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے پوری قوم کو ایک پیچ پر متحد ہونا ہوگا۔ سوچ میں یک جہتی اور اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔جو پوری قوم کی بقا اور ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت کومزید پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دینا چاہیئے، مرکزی و صوبائی حکومتوں، مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ”تجاہل عارفانہ“ یا طرز تغافل ترک کرنا ہوگا، بلکہ اس عفریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اسے ختم کرنے کی سنجیدہ اور عملی کوشش کرنا ہوگی۔ اس کوشش کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے کہ سوچ،حکمت عملی اور نظریے میں کوئی ابہام اور تضاد نہ ہو۔
(23دسمبر 2024)