اے وسیم خٹک
مئی 2025 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی، جب پہلگام پر دہشت گرد حملے کے بعد بھارت نے پاکستان میں فضائی کارروائیاں کیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کی۔ اس حالیہ تنازع میں دنیا کی نظر چین پر مرکوز ہوگئی ہے جن کے مطابق چین نے پاکستان کی عسکری مدد کی۔ جس نے جنگ کے توازن کو غیر متوقع طور پر بدل کر رکھ دیا۔
برطانوی اخبار The Telegraph کے مطابق پاکستان نے بھارتی رافیل طیارے مار گرائے، اور یہ کارروائی چین کی جانب سے فراہم کیے گئے جدید ریڈار سسٹمز اور جے-10 سی لڑاکا طیاروں کی مدد سے ممکن ہوئی۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ پہلا موقع ہے جب چینی ساختہ دفاعی نظام نے مغربی ساختہ طیاروں کے خلاف اتنی واضح کامیابی حاصل کی۔ اس واقعے کے بعد عالمی سطح پر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں فوجی توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
اس کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے میں 26 سیاح جاں بحق ہوئے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے “آپریشن سندور” کے تحت پاکستان کے اندر نو مقامات کو نشانہ بنایا۔ جواباً پاکستان نے “آپریشن بنیان المرصوص” کے تحت بھارت کے فوجی اہداف پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن کے نتیجے میں متعدد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ ان کارروائیوں نے دونوں ممالک کو براہِ راست جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیا اور دونوں جانب تباہی ہوئی۔
اسی دوران امریکہ نے سفارتی مداخلت کرتے ہوئے بھارت کو فوری طور پر جنگ بندی کا مشورہ دیا،حالانکہ امریکی حکام نے پہلے درمیان میں آنے سے انکار کردیا تھا کہ دونوں ایٹمی ممالک ہیں وہ خود فیصلہ کریں ۔اور تین دن کی جارحارنہ کاروائی کے بعد پاکستان نے جوابی حملہ کرکے انہیں ناکوں چنے چبوائے جس کے بعد 10 مئی کو دونوں ممالک نے سیزفائر پر رضامندی ظاہر کی۔جس میں امریکہ نے اپنا کردار ادا کیا جب بھارت امریکہ کی گود میں ایک دفعہ پھر بیٹھ گیا کہ ثالثی کردیں اور یوں امریکہ نے دونوں ممالک کو مجبور کرکے سیزفائر کرادی ۔ مگر گزشتہ روز پھر کشمیر میں دوبارہ دھماکوں اور فائرنگ کی اطلاعات نے ایک بار پھر حالات کو غیر یقینی بنا دیا۔جو کہ وقتی ہے اور آنے والے دن میں یہ حملے رک جائیں گے ۔
اس سارے معاملے میں چین کا کردار اس پورے معاملے میں انتہائی دلچسپی کا باعث بنا۔ ایک طرف چین نے کشمیری حملے کی مذمت کی، لیکن دوسری جانب اس نے پاکستان کی عسکری امداد جاری رکھی۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوول سے بات چیت کی اور ثالثی کی پیشکش کی، لیکن بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی یہ “دوہری پالیسی” ناقابل اعتماد ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون اور گوادر سے لے کر گلگت بلتستان تک اس کی موجودگی نے بھارت میں گہری تشویش پیدا کی ہے۔
اسی تناظر میں، بھارت کے معروف رہنما راہول گاندھی کی ایک پرانی ویڈیو دوبارہ وائرل ہو گئی ہے، جس میں انہوں نے لدّاخ اور تبت کے دورے کے بعد کہا تھا کہ چین اور پاکستان مل کر ایک “خطرناک اتحاد” بنا رہے ہیں جو بھارت کے لیے ایک مسلسل خطرہ بن سکتا ہے۔ ویڈیو میں وہ کہتے ہیں:
“چین نے تبت کے راستے سے لداخ میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے اور پاکستان سے اس کا دفاعی تعاون بڑھ رہا ہے، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک نئے عالمی اتحاد کا سامنا کر رہے ہیں۔”
یہ ویڈیو اس وقت تو نظرانداز کر دی گئی تھی، لیکن حالیہ واقعات نے راہول گاندھی کی تشویش کو درست ثابت کر دیا ہے۔
ان سب کے علاوہ اگر فوجی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بھارت بظاہر عسکری لحاظ سے برتری رکھتا ہے اس کے پاس 1470000 فوجی، 3740 ٹینک، 730 لڑاکا طیارے اور 29 جنگی بحری جہاز ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس 660000 فوجی، 2537 ٹینک، 452 لڑاکا طیارے اور 10 جنگی بحری جہاز ہیں۔ لیکن جنگیں صرف عددی برتری سے نہیں جیتی جاتیں؛ ٹیکنالوجی، حکمت عملی، اور بین الاقوامی حمایت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ اور جذبہ ایمانی بھی شامل ہوتی ہے جو کہ مسلمانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ حالیہ لڑائی میں چین، ترکی، بنگلہ دیش، حتیٰ کہ آئی ایم ایف جیسی تنظیموں کی پاکستان کی طرف جھکاؤ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ صرف عسکری طاقت کافی نہیں، بلکہ سفارتی اور فکری اور تدبیری حمایت بھی نہایت اہم ہے۔
اس وقت صورتحال بہت نازک ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر جنگ بندی ہو چکی ہے، لیکن زمینی حقائق اور فضا میں چھائی کشیدگی اس کے برعکس ہے اور یہ امن عارضی ہے۔ اگر عالمی برادری نے سنجیدہ ثالثی کا کردار نہ اپنایا تو جنوبی ایشیا ایک بڑے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔