صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی اسلام آباد احتجاج کے لیے تیار، وزیراعلیٰ کی زیر قیادت ڈی چوک روانگی کی تیاریاں مکمل
وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کا سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ
پشتون تحفظ موومنٹ کے کیمپ پر پولیس کارروائی پر گرما گرم بحث جاری
پشاور (غگ رپورٹ) صوبہ خیبرپختونخوا سیکورٹی چیلنجز کے باوجود ایک بار پھر سیاسی کشیدگی اور کشمکش کا مرکز بننے والا ہے اور وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں جمعہ کے روز ڈی چوک اسلام آباد پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے یا ایونٹ کے لیے سرکاری وسائل استعمال کرنے سمیت مختلف تجاویز پر مبنی شیڈول کی منظوری دی گئی۔
ڈی چوک احتجاج کیلئے صوبائی حکومت کی تیاریاں
اجلاس میں ہر رکن اسمبلی کو 500 کارکن اسلام آباد پہنچانے کے علاوہ یہ ہدایت بھی کی گئی کہ کارکن ڈنڈوں،ماسکس، رومالوں اور غلیلوں کا بھی انتظام کریں تاکہ وفاقی اور پنجاب پولیس کو بوقت ضرورت “ٹف ٹائم” دیا جائے۔
اجلاس میں پولیس کی زیر نگرانی اہم قائدین اور وزراء کو سکواڈ کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ یہ ہدایت بھی کی گئی کہ کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات بھی ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کے ذمے ہوں گے۔
انتشار اور تشدد روکنے کیلئے وفاقی حکومت کی تیاریاں
دوسری جانب اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس میں جہاں ایک طرف شنگھائی تعاون کانفرنس کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا وہاں تحریک انصاف کے مذکورہ ایونٹ کے بارے بھی لائحہ عمل طے کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ کسی کو بھی احتجاج کے نام پر تشدد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پی ٹی ایم کے خلاف پختونخوا پولیس کی کارروائی، صوبائی حکومت کا عجیب مؤقف
ادھر بدھ کے روز پشاور اور خیبر پولیس نے ان دو اضلاع میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خیرمقدمی کیمپوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے کیمپس اکھاڑ دیے جس پر صوبائی حکومت کا بہت عجیب وغریب مؤقف سامنے آیا۔ مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف اور بعض دیگر نے سوشل میڈیا پر موقف اختیار کیا کہ پی ٹی ایم کے خلاف یہ کارروائیاں وفاقی حکومت کے حکم پر عمل میں لائی گئی ہیں تاہم دوسری جانب سے اس موقف کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ چونکہ پولیس انتظامی طور پر صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اس لیے صوبائی حکام غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ دوسروں کے علاوہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے بھی ایک طویل ویڈیو میں ان کارروائیوں کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہوئے اس اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے پولیس کو طعنے دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ ریاست کے ایسے احکامات ماننے سے انکار کریں اور احتجاج کا راستہ اختیار کریں۔