اے وسیم خٹک
پاکستان میں خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع خاص طور پر دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے جوجھ رہے ہیں اور اس صورت حال میں جب سیاسی اور حکومتی قیادت اپنے ذاتی مفادات اور انا کے گرد گھوم رہی ہے، عوامی مشکلات اور امن و امان کی صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ “وائی عالم پہ سہ دے اور سید عالم پہ سہ دے” کا پشتو محاورہ اس وقت مکمل طور پر فٹ آتا ہے، جو کہ اس وقت کی حکومت کی ترجیحات اور ان کی عدم توجہ کو واضح کرتا ہے۔ اس محاورے کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک طرف بڑی پریشانی سر پر ہو اور دوسری طرف چھوٹے مسائل پر وقت ضائع کیا جا رہا ہو۔
خیبر پختونخوا اور اس کے جنوبی اضلاع میں جو صورت حال ہے، وہ انتہائی سنگین ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاراچنار، لکی مروت، ٹانک، سوات اور دیگر اضلاع میں جاری دہشت گردانہ کارروائیاں اور فرقہ وارانہ تصادم علاقے کے عوام کے لیے تباہی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پاڑاچنار میں حالیہ شیعہ قافلے پر حملے کے بعد جہاں بے گناہ لوگ شہید ہوئے، وہیں سنیوں کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ ان سب کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں، جبکہ حکومتی ادارے اور سیاسی قیادت اپنے ذاتی مفادات میں مگن ہیں۔
صوبائی حکومت، جو کہ عمران خان کی رہائی پر مرکوز ہے، اس کے لیے ہر قسم کے وسائل استعمال کر رہی ہے۔ 80 کروڑ روپے صرف ایک احتجاج کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں، جو کہ عوامی فلاح کے لیے اسکولز، ہسپتالوں اور سڑکوں کی تعمیر جیسے اہم منصوبوں پر خرچ ہوسکتے تھے۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت بھی جلسوں اور دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے وسائل خرچ کر رہی ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی بھرپور کردار نظر آ رہا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود عوامی مسائل اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
اگرچہ حکومتیں اور ادارے آپس میں سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ملک اور عوام کے مسائل پر ان کی توجہ مبذول نہیں ہو رہی۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ تینوں بڑی طاقتیں—صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ—اس صورتحال کو سدھارنے کے لیے مل کر کام کریں گی، لیکن ان کی انا اور سیاسی مفادات اس عمل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عوام بالخصوص پختونوں کی زندگی سخت ہو چکی ہے اور وہ مسلسل ان دہشت گردی کی کارروائیوں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی بھاری قیمت چکانے پر مجبور ہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب حکومتوں اور اداروں کو “عالم پہ سہ دے اور سید عالم پہ سہ دے” کا محاورہ اپنے عمل سے بدلنا ہوگا، یعنی اپنی ترجیحات درست کرنی ہوں گی۔ اس کی بجائے کہ وہ سیاسی مفادات کے لیے وسائل ضائع کریں، انہیں عوامی مسائل اور ملک کی سلامتی کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں، اور پاکستان میں امن و استحکام کی بحالی کا خواب محض ایک دور کی بات بن کر رہ جائے گا۔