عقیل یوسفزئی
آثار بتارہے ہیں کہ پاکستانی ریاست نے دہشتگردی اور شرپسندی کے علاوہ سوشل میڈیا کے “کی بورڈ واریئرز” کے خلاف گھیرا تنگ کردیا ہے اور ریاستی اداروں نے مفاہمت اور نرمی کی بجائے سخت رویہ اختیار کرلیا ہے۔ دوسری جانب ریاست میزائل ٹیکنالوجی سے متعلق امریکہ کی حالیہ پابندیوں اور سخت رویے کے خلاف بھی ڈٹ گئی ہے۔ بعض اندرونی اور بیرونی چیلنجز اور لابنگز کے باوجود سال 2024 کے دوران مختلف معاملات اور مسائل پر 2023 کے مقابلے میں ریاست کی گرفت مضبوط دکھائی دی اور معاشی حالات میں بھی کافی بہتری واقع ہوئی۔ ریاست نے پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست کو نہ صرف متعدد بار ناکام اور غیر موثر بنایا بلکہ گزشتہ روز خلاف توقع 9 مئی کے واقعات میں ملوث 25 پی ٹی آئی کارکنوں کو فوجی ٹرائل کے ذریعے سخت سزائیں دیکر قیادت سمیٹ ان عہدے داروں کو بھی خوفزدہ کردیا ہے جن کے خلاف 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے مقدمات قائم ہیں۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کو سزائیں دینے کا نکتہ براہ راست عمران خان اور بعض دیگر کی طرف اشارہ ہے۔ ان سطور میں بار بار نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات پر پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے مگر پی ٹی آئی اور اس کی حامی عدالتوں نے اس معاملے کو بہت “لائٹ” لیا جس کا نتیجہ گزشتہ روز کے غیر متوقع فیصلے کی صورت میں نکل آیا۔ اس پیشرفت نے مجوزہ مذاکراتی عمل کو بھی خطرے سے دوچار کردیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی تو یہ توقع لگائی بیٹھی ہے کہ اس کے کارکنوں اور عہدیداروں کو مذاکرات کی شرائط کے مطابق رہا کردیا جائے گا مگر یہاں تو 25 کو سخت سزائیں دی گئیں اور مزید کی ٹرائل جاری ہے۔
دوسری جانب 190 ملین پاؤنڈ کیسس کا فیصلہ سنانے کی تلوار بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ کے سر پر منڈلانے کی پوزیشن میں ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے لیڈرز اور وکلاء خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس کیس میں سابق وزیراعظم کو سخت سزا ہوسکتی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت بھی جاری ریاستی صف بندی کے تناظر میں عمران خان کا “مزاحمتی ایجنڈا” مزید آگے بڑھانے سے بیزار نظر آنی لگی ہے جبکہ سول نافرمانی کی مجوزہ تحریک کے لیے بھی لیڈرز اور کارکن تیار نظر نہیں آتے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اور اس سے وابستہ پروپیگنڈا مشینری پر بھی ریاست مختلف طریقوں سے ٹوٹ پڑی ہے اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ پارٹی کے مرکزی قائدین خود اس پروپیگنڈا مشینری سے تنگ آکر مزاحمت پر اتر آئے ہیں۔
دوسری جانب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی تیزی واقع ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں موجود چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے پر پاک فوج کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ وزیرستان ، بنوں کرم اور تیراہ میں مڈل سکیل فوجی کارروائیوں کی تیاری جاری ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اتوار کے روز وانا کا دورہ کیا جہاں کور کمانڈر پشاور نے ان کو کاؤنٹرٹیررازم اقدامات پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج نے عوام اور دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے اور نوجوانوں کی قربانیاں اس عزم کا عملی اظہار ہے ۔ ان کے مطابق پوری قوم کو قربانیاں دینے والوں کی شہادتوں پر فخر ہے اور ان شہداء کے خون کو کسی قیمت پر رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سال 2025ء پاکستان کے اندرونی شورشوں اور سیاسی عدم استحکام کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے پیش منظر میں فیصلہ کن سال ثابت ہوگا اور ریاست کے اقدامات میں مزید تیزی واقع ہوگی۔
(23دسمبر 2024)