GHAG

افغانستان مسائل کی جڑ یا کچھ اور ۔۔۔

تحریر: روخان یوسف زئی

یہ ہم نہیں کہتے ، نہ ہی کوئی سنی سنائی بات ہے نہ ہی اپنی نا پسندیدگی کا اظہارہے اور نہ ہی کوئی الزام یا پروپیگنڈا ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ کہتی ہے کہ داعش سمیت افغانستان میں لگ بھگ 20 عسکریت پسند تنظیمیں آج بھی موجود ہیں۔ان تنظیموں میں مقامی افغان جنگجووں کے علاوہ بڑی تعداد میں پڑوسی ممالک کے عسکریت پسندوں سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے جنگجووں کی بھی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔مگر اس رپورٹ کی افغان حکومت نے کوئی تردید نہیں کی اور نہ ہی کوئی نوٹس لے رہی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی افغان حکومت کے لیے ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسے وہ اپنے لیے کوئی خطرہ سمجھ کر اس سے نمٹا جائے ۔لیکن پاکستان کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ اور خطرہ تو ہے نا۔

دوسری جانب افغان حکومت اس گھمنڈ میں بھی ہے کہ یہاں داعش سمیت کوئی بھی ایسی عسکریت پسند تنظیم نہیں جواس پوزیشن میں ہوکہ وہ ہمیں کوئی نقصان پہنچائے۔ داعش کا طریقہ واردات تو اب ”حملہ کرو اور بھاگ جاؤ“ ہے۔ بہر حال جب آپ کے پڑوس میں ایسے عناصر موجود ہوں جن کا کاروبار اور پیداوار ہی جنگ وجدل،بدامنی شر وفساد،بدامنی اور دہشت گردی ہو ان عناصر سے پھر دوسرا پڑوسی کیسے پرامن اور محفوظ رہ سکتا ہے؟ لہذا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسندوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ ہےاورصرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی یہ بات باعث تشویش ہے۔

گزشتہ دنوں بنوں چھاؤنی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جو دہشت گردی کے افسوس ناک واقعات رونما ہوئے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی۔پاکستان نے ان واقعات پر افغان حکومت سے سخت لہجے میں احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ طالبان حکومت کو کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیئے اور اپنے اس وعدے پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیئے جس میں کہا گیا ہے کہ دوسرے ملک کے خلاف اس قسم کی کارروائی میں افغان سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔مگرسوال یہ ہے کہ یہ شرپسند اور دہشت گرد آسمان سے تو نہیں اترے تھے ۔لہذا حالیہ رپورٹ کی روشنی میں افغانستان میں عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی اور ان سے افغان حکومت کے روابط نے پوری دنیا اور خصوصاً خطے کے امن دوست ممالک کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

ہم ایک دوسرے فکری مغالطے کا بھی شکار ہیں کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کی وجوہات غربت،جہالت یا بے روزگاری ہیں لیکن اعداد وشمار اس کی تائید نہیں کرتے،نہ ملکی،نہ عالمی۔چنانچہ دہشت گردی کا شکار علاقوں یا جہاں سے دہشت گرد اٹھ کر آتے ہیں وہاں سڑکیں بنانا،سکول کھولنا،دیگر تعمیری منصوبے شروع کرنا یا روزگار وغیرہ کے نئے نئے مواقعے پیدا کرنا گو اپنی جگہ انتہائی مثبت اور قابل تحسین اقدامات ہیں اور یہ ان علاقوں میں رہنے والوں کا بنیادی انسانی حق بھی ہے جو انہیں ہر صورت ملنا چاہیئے۔لیکن تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ دہشت گردی کے مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل نہیں کیونکہ ان علاقوں میں یہ سب کچھ کسی نہ کسی حد تک کرنے کے بعد بھی دہشت گردی کم نہیں ہوئی بلکہ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ والی صورت حال ہے۔

آج کی ایک حقیقت بین الملکی تجارت اور علاقائی تعاون ہے جس کے بغیر کوئی بھی ریاست ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی لہذا یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ رکھاجائے دونوں ممالک آپس میں کئی مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں برادر پڑوسی ممالک میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت امن کا قیام ہے لہذا دہشت گردی،عسکریت پسندی اور شدت پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے معاملات میں ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف بغیر کسی امتیاز اور پسند نا پسند کے سخت ترین اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

موجودہ صورت حال میں خطے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور امن دوست عالمی برادری کی جانب سے طالبان حکومت کو ان گروہوں کی سرپرستی کرنے سے روکنے کے لیے اپنی آواز اور دباو بڑھانا ہوگا۔۔افغان حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی سے مل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔یقیناًیہ بات درست ہے کہ عوام اور سیکورٹی فورسز مل کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتی ہے مگر ملک کی قیادت کو بھی گھسے پٹے بیانات سے آگے بڑھ کر قومی سطح پر ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا چاہیئے جس کو دیکھ کر دشمن کو اندازہ ہو کہ اس مسئلے میں سیاسی قیادت کے مابین کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام پاکستانی یک زبان اور یکسو ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts