خیبرپختونخوا کی طرح صوبہ بلوچستان بھی گزشتہ کئی برسوں سے بدامنی اور عدم استحکام کی لپیٹ میں ہے ۔ دونوں صوبوں کی جغرافیائی اہمیت نے اندرونی اور بیرونی پراکسیز اور مختلف ریاست مخالف گروپوں کو جنگ اور دہشت گردی پر آمادہ کیا کیونکہ دونوں صوبوں کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے جبکہ دوسری طرف ماضی کی غلط پالیسیوں اور بعض محرومیوں نے یہاں مزاحمتی رویوں کا راستہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
اگر چہ بلوچستان میں جاری کشیدگی میں 2005 کے بعد اضافہ ہوا ہے اور یہاں بلوچ علیحدگی پسندوں کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی اور جنداللہ جیسی مذہبی انتہا پسند گروپ بھی بہت فعال رہے ہیں تاہم گزشتہ تین برسوں کے دوران حملوں کی تعداد میں خیبر پختونخوا کی طرح غیر معمولی اضافہ ہوا اور گزشتہ روز صوبے کے تقریباً 10 مختلف علاقوں میں جس منظم پلاننگ کے تحت حملے کئے گئے اس نے نہ صرف ریاست بلکہ پوری سوسائٹی کو نہ صرف بہت دکھی کیا بلکہ متعدد سوال بھی پیدا کیے۔ 14 سیکورٹی اہلکاروں سمیت تقریباً 50 عام شہریوں کو شہید کردیا گیا تو 25 گاڑی کو نذراتش کیا گیا ۔ دوسری جانب فورسز نے 22 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا اور مختلف علاقوں میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن جاری ہیں ۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عام مزدوروں کو باقاعدہ شناخت کے بعد ماضی کے متعدد دیگر کارروائیوں کی طرح بے دردی سے شہید کیا گیا اور بلوچ لبریشن آرمی نے نہ صرف ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی بلکہ جاری کردہ بیان میں بلوچ عوام کو ٹی ٹی پی کے طرز پر ریاست کے خلاف جنگ لڑنے کی دعوت بھی دی ۔
ان خوفناک حملوں کی ٹائمنگ کو مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جس روز یہ حملے کئے گئے اس روز دوست ملک چین کے آرمی چیف پاکستان کے دورے پر تھے اور یہاں ان کے لیے مختلف تقریبات اور میٹنگز کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ چین گوادر پورٹ اور سی پیک کی مد میں پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کررہاہے جس سے ایک عالمی طاقت کے علاوہ بھارت اور بعض دیگر پڑوسی بھی خوش نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان حملوں کے بعد بھارتی میڈیا نے جہاں ایک طرف فیک نیوز اور تبصروں کے دوران بلوچستان میں بغاوت کا تاثر دینے کی مہم چلائی وہاں اس کے مین سٹریم میڈیا نے گوادر ، سی پیک اور پاک چین تعلقات پر مسلسل سوالات کھڑے کرتے ہوئے چین اور دیگر کو مشورہ دیا کہ وہ بدامنی سے دوچار پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرے ۔
اس سے چند ماہ قبل ایسے ہی حملے بلوچستان میں اس وقت کیے گئے تھے جب ایران کے وزیرِ خارجہ کی قیادت میں ایک اہم وفد اسلام آباد آیا ہوا تھا ۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اس تمام خونی کھیل اور ڈرٹی گیم میں بہت اہم پاکستان مخالف قوتیں ملوث ہیں اور وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے اس کی ترقی سے متعلق اہم پراجیکٹس کو متنازعہ یا سبوتاژ کرنے کی منظم پلاننگ پر عمل پیرا ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ حق تلفی اور زیادتیوں کا بیانیہ لیکر سیاست اور مزاحمت کرنے والے گروپوں کو استعمال کرتے آرہے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے ساتھ مختلف ادوار میں واقعتاً امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے تاہم اس کی آڑ میں اس طرح کی مزاحمت یا بربریت کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا جو کہ دیکھنے کو ملیں ۔ اس پر ستم یہ کہ بعض ریاست بیزار حلقوں نے سوشل میڈیا پر پنجاب کی دشمنی میں نشانہ بننے والے مزدور پیشہ افراد کی بے رحمی کے ساتھ ہونے والے قتل عام پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ وہی لاین اپنائی جو کہ ان دو دنوں میں بھارتی میڈیا نے ایک باقاعدہ مہم کی شکل میں اختیار کی تھی ۔
ریاستی حکام نے ان واقعات کو کھلی دہشت گردی کا نام دیکر اس تمام سلسلے کو پاکستان کے خلاف سازشوں کا نام دیتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث گروپوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا مگر مذکورہ حلقوں نے حسب معمول اسے پاکستان کی اہم قومیتوں کے درمیان منافرت اور بداعتمادی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا سنجیدگی کے ساتھ از سر نو جائزہ لیکر ایک مؤثر اور نتیجہ خیز پلان تشکیل دیکر ہنگامی طور پر اقدامات کیے جائیں اور اس قسم کی خوفناک اور افسوسناک واقعات کے ذمہ داران اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ پوری ریاستی قوت کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آڑ میں ان ” کیبورڈ واریئرز” کا بھی سختی کے ساتھ راستہ روکا جائے جو کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہ صرف یہ کہ جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں بلکہ مختلف قومیتوں اور صوبوں کے درمیان فاصلے پیدا کرنے اور منافرت بڑھانے کا سبب بن کر ایسے واقعات کی انسانیت کے فریم ورک میں رہتے ہوئے مذمت بھی نہیں کرتے ۔ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے میں کوئی برائی نہیں اور متعدد سیاسی ، سماجی حلقے وقتاً فوقتاً اس ضمن میں آواز اٹھانے کے علاوہ احتجاج بھی کرتے ہیں تاہم یہ تمام سرگرمیاں پرامن طریقے سے ہونی چاہئیں اور ساتھ میں یہ کوشش بھی کی جانی چاہئے کہ کسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کا راستہ ہموار نہ ہو کیونکہ پاکستان کو متعدد پراکسیز کی یلغار کا سامنا ہے ۔