اے وسیم خٹک
کسی گاؤں میں گل بہادر نام کا ایک قبائیلی پختون آلو پیاز کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ بڑی عید سے ایک دن قبل بازار میں خوب چہل پہل تھی۔ ہر طرف لوگ اپنے قربانی کے جانوروں کو ٹہلا رہے تھے، گل بہادر اپنی ریڑھی کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسے ایک جانب سے شور سنائی دیا۔ گل بہادر نے اس سمت دیکھا تو لوگ ادھر ادھر بھاگتے نظر آئے جبکہ ایک بد مست بیل سڑک کے بیچوں بیچ دوڑتا آ رہا تھا۔ کچھ لوگ سڑک کے دائیں بائیں بیل کے پیچھے بھاگ رہے تھے لیکن کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ بیل کے پیچھے گھسٹتی رسی پر ہاتھ ڈال کر بیل کو پکڑے۔
جب بیل گل بہادر کے قریب پہنچا تو گل بہادر نے ایک دم بیل کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ دوڑتے دوڑتے وہ رسی تک پہنچا اور رسی پکڑ لی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بیل آگے آگے دوڑ رہا تھا اور رسی پکڑے گل بہادر چند قدم پیچھے اس کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ جبکہ بیل کے مالکوں سمیت بہت سے لوگ ان کے پیچھے شور مچاتے چلے جا رہے تھے۔ ایسے میں کسی نے آواز لگائی، “زندہ باد گل بہادر، گل بہادر بہت بہادر ہے”، بس پھر تو سارا ہجوم ہی نعرے لگانے لگا۔
یہ نعرے سن کر گل بہادر مزید جوش میں آ گیا اور مزید تیز دوڑنے لگا۔ اس بھاگ دوڑ میں وہ کئی بار گرا اور پھر کسی نہ کسی طرح اٹھ کر دوڑنے لگا۔ بالآخر اس نے بیل کی گردن تک پہنچ کر اس کی گردن دبوچ لی۔ بیل نے اسے ٹکریں مار مار کر کبھی ادھر پٹخا تو کبھی ادھر ٹکرا دیا لیکن “گل بہادر بہت بہادر ہے” کے نعرے کے سحر میں گرفتار گل بہادر نے بیل کی گردن نہیں چھوڑی۔
اتنے میں بیل کے مالک آن پہنچے۔ انھوں نے بیل کو قابو میں کر لیا، گل بہادر کو شاباش دی اور تعریفیں کر کے اپنی راہ ہو لیے۔کچھ لوگوں نے گل بہادر کو سہارا دے کر اٹھایا۔ اس کے سارے کپڑے پھٹ چکے تھے۔ پورا جسم بری چھل چکا تھا۔ کئی جگہ بیل کی ٹکر سے لگنے والے زخم نظر آ رہے تھے۔ ایک کان سینگ لگنے سے بری طرح زخمی تھا۔ گل بہادر کو اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا۔ مرہم پٹی کروائی گئی۔ کان میں ٹانکے لگے۔ رات ہسپتال میں گزری۔
اگلے دن عید تھی، ہسپتال سے اسے گھر لے جایا گیا تو برادری والے عیادت کے لیے آنے لگے۔ سب لوگ گل بہادر کے زخمی ہونے کے بے وقوفانہ واقعہ پر اس سے پوچھتے کہ آخر اس نے ایسا کیا کیوں؟ اور گل بہادر کے پاس شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ سب کے لیے بس ایک ہی جواب ہوتا تھا، ” گل بہادر بہت بہادر ہے”۔
بہت سال گزر گئے، گل بہادر پتہ نہیں زندہ ہے یا مر گیا ہے لیکن گل بہادر کی قوم میں گل بہادری سوچ بالکل ویسے ہی زندہ ہے۔
مسئلہ کسی کا بھی ہو، کٹا کسی کا بھی کھلا ہو، گل بہادر کے ہم نسل دوڑ کر کٹے کی رسی پکڑ لیتے ہیں اور پھر ادھر ادھر ٹکراتے، گرتے پڑتے، پٹخنیاں کھاتے کٹے کے ساتھ دوڑتے رہتے ہیں جبکہ کٹے کے مالک تماشائی بن جاتے ہیں “گل بہادر بہت بہادر ہے” کے نعرے لگاتے ہیں۔
اور ٹوٹی پھوٹی “گل بہادری” قوم جب یہ نعرے سنتی ہے تو اپنی حالت نظر انداز کر کے پھر نئے جوش سے کٹے سے مشت و گریباں ہو جاتی ہے۔ اس چکر میں ان کے سارے بل کس نکل جاتے ہیں۔ پھر کٹے کے مالک آ کر کٹے کی رسی تھام کر گل بہادروں کو تھپکی دے کر چلے جاتے ہیں اور گل بہادر بیچارے زخم سہلاتے عیدیں بستر پر کراہتے ہوئے گزارتے ہیں اور سارے زندگی لوگوں کو یہی بتاتے پھرتے ہیں کہ “گل بہادر بہت بہادر ہے۔”
گل بہادر کی کہانی صرف ایک شخص کی نہیں، بلکہ پوری پختون قوم کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ قوم صدیوں سے بہادری، غیرت اور قربانی کے اصولوں پر زندہ ہے، لیکن بدقسمتی سے، اس بہادری کا اکثر غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔
جیسے گل بہادر نے اپنے مسئلے سے قطع نظر، دوسروں کے کٹے کے پیچھے اپنی جان لڑا دی، ویسے ہی پختون قوم بھی کئی مواقع پر دوسروں کے مسائل کو اپنا مسئلہ بنا کر اپنی توانائیاں اور وسائل ضائع کرتی رہی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کو زخم سہنے پڑتے ہیں، اور اصل مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
گل بہادر کی طرح، پختون قوم بھی جذباتی نعروں اور غیر ضروری حوصلہ افزائی کے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ قیادت کے فقدان اور غیر ضروری جذباتیت نے اسے بارہا ایسے راستوں پر ڈال دیا جہاں نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پختون قوم کی غیرت، بہادری، اور قربانی کا جذبہ اگر درست سمت میں استعمال ہو تو یہ قوم دنیا میں اپنی الگ شناخت اور مقام پیدا کر سکتی ہے۔ گل بہادر کے زخموں سے سبق لے کر اگر یہ قوم اپنی بہادری کو شعور، حکمت، اور مقصد کے ساتھ استعمال کرے، تو یہ اپنی حالت زار بدل سکتی ہے اور ایک مضبوط، ترقی یافتہ اور باشعور قوم بن سکتی ہے۔