وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے گزشتہ شام خیبرپختونخوا اسمبلی سے ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دی ہے اور اپنے کارکنوں کو مزید گمراہ کرنے کے لیے یہاں تک کہا ہے کہ اب کے بار اگر ان کا راستہ روکنے کے لیے گولی چلائی گئی تو وہ بھی جوابی گولی چلائیں گے۔ انہوں نے بعض دیگر ایسی بے تکی باتیں بھی کیں جن کو نہ صرف یہ کہ ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں ہے بلکہ اس سے اس ذہنی پستی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے جو کہ مذکورہ پارٹی کی قیادت کے ہاں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس موقع پر وہ کسی صوبے کے چیف ایگزیکٹیو یا سیاسی رہنما کی بجائے گلی کوچے کے ایک “غنڈے”دکھائی دیے ۔ انہوں نے مجوزہ گورنر راج کے نفاذ کے بارے میں بھی بے سروپا باتیں کیں اور وہ الفاظ استعمال کیے جو کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ کے لیے استعمال کیے تھے حالانکہ جمعہ کے روز متعدد وفاقی وزراء اور سیاسی قائدین کے علاوہ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی دو مختلف انٹرویوز میں واضح انداز میں موقف اپنایا کہ صوبے میں گورنر راج نافذ کرکے پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کو شہید بننے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ گورنر کے بقول وہ 5 دسمبر کو پشاور میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس بلارہے ہیں جس میں صوبے خصوصاً کرم کی سیکورٹی صورتحال پر سب کے ساتھ مشاورت کی جائے گی اور ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا کیونکہ ان کے بقول صوبائی حکومت امن کے قیام میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
اسی طرح وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ چوتھی بار اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی جو کہ ایک مجرمانہ رویہ اور فعل ہے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے ایک اہم اجلاس میں جہاں 24 اور 26 نومبر کے فسادات کا جائزہ لیا وہاں ایک ٹاسک فورس کی منظوری بھی دی گئی جو کہ اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے قائم کی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ نے اسمبلی اجلاس سے کیے گئے اپنے خطاب میں جو لہجہ استعمال کیا اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی “شرمندگی اور سبکی” سے بچنے کا جواز فراہم کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنی پراسرار “فرار” کو وفاقی حکومت کے “ظلم و ستم” کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی بلکہ ان مشتعل کارکنوں کو رام کرنے کی ناکام کوشش بھی کی جو کہ وزیراعلیٰ اور بشریٰ بی بی کو پی ٹی آئی کے ناکام شو کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور قیادت کی سطح پر بھی دونوں رہنماؤں کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے گھرد اپنی ہی پارٹی کا گھیرا تنگ ہونے لگا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے علاوہ اے این پی اور جے یو آئی جیسی پارٹیاں بھی یہ موقف اختیار کرگئی ہیں کہ گورنر راج نافذ کرکے پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کو سیاسی شہید بننے نہیں دیا جائے۔
بعض باخبر حلقوں کے مطابق وزیر اعلیٰ گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ہی اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کی پوری عمارت دھڑام سے گرانے کے لیے کافی ہیں اور دونوں کے درمیان موجود کوئی انڈرسٹینڈنگ رہی سہی کسر بھی پوری کرلے گی اس لیے کسی اور کو کچھ خاص کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
شیخ وقاص اکرم اور ان جیسے دیگر پنجاب سے کارکن نکالنے کی بجائے پورے احتجاج سے غائب رہنے کے بعد ایک بار پھر منفی پروپیگنڈا کے لیے پشاور میں ڈیرے ڈال کر سرکاری وسائل اور پروٹوکول سے مستفید ہونے لگے ہیں۔ یہ لوگ جہاں ایک طرف ایک اور “یلغار” کا چورن بیچنے لگ گئے ہیں بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے علاوہ “مال کماؤ پراجیکٹس” میں بھی مصروف عمل ہیں جبکہ بشریٰ بی بی اپنی ” ٹیم” کے ہمراہ اپنی دکان سجائی بیٹھی ہیں جس کی ترجمانی اور مارکیٹنگ کی ذمہ داری لوکل فرح گوگی یعنی مشعال یوسفزئی کے “بھاری بھرکم” کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے جو کہ بشریٰ بی بی کی معتمد خاص اور ترجمان ہیں۔
لگ یہ رہا ہے کہ وزیراعلیٰ ہاوس اور مختلف وزارتوں کے دفاتر میں کرپشن کے نام پر “لوٹ سیل” لگی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کے “معززین” اپنے بانی کی رہائی کی بجائے سب کچھ لپیٹ کر اپنی “خدمات” کا صلہ وصول کرنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان پر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ وہ اپنے طرزِ عمل کے باعث نہ صرف ریاست بلکہ اپنے کارکنوں کے ہاتھوں بھی بند گلی میں محصور ہو کر رہ گئے۔