تحریر: بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
امریکہ، برطانیہ، اور یورپی یونین نے حال ہی میں پاکستان میں فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کے ٹرائل اور سزاؤں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یہ سزائیں ان افراد کو دی گئیں جو 9 مئی 2023 کے فسادات کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث پائے گئے تھے۔ ان فسادات کے دوران مختلف مقامات پر سیاسی اشتعال انگیزی، تشدد، اور آتش زنی کے واقعات پیش آئے۔
ہم بحیثیت پاکستانی ان سزاؤں کے حق، مخالفت یا اپنے دیگر مسائل پر بات کر سکتے ہیں، لیکن ان بیرونی ممالک کو، جن کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اپنا ٹریک ریکارڈ انتہائی خراب ہے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ یہ ممالک، اپنے سیاسی مقاصد اور دیگر مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے، پاکستان جیسے خود مختار ملک کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے، دوسروں پر تنقید کرنا ان کی منافقت اور دوہرے معیار کو عیاں کرتا ہے، جو نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ان کے اپنے ممالک میں بھی واضح ہے۔
امریکہ کا دوہرا معیار
امریکہ میں نسل پرستی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک دیرینہ مسئلہ ہیں، جو تاریخی اور ادارہ جاتی سطح پر گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ نظامی نسل پرستی کے تحت، سیاہ فام افراد کو پولیس، عدلیہ، اور دیگر اداروں میں شدید امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2022 میں پولیس کے ہاتھوں 1,176 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سیاہ فام افراد کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے تین گنا زیادہ تھی۔ جارج فلائیڈ اور بریونا ٹیلر جیسے واقعات نے دنیا بھر میں امریکہ کے نظامی نسل پرستی کے مسائل کو اجاگر کیا۔ سیاہ فام افراد کے جیل جانے کا امکان سفید فام افراد کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے، حالانکہ وہ کل آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں، لیکن جیلوں میں ان کی نمائندگی 38 فیصد ہے۔
معاشی طور پر بھی گہری تفریق موجود ہے، جہاں سفید فام خاندانوں کی اوسط دولت سیاہ فام خاندانوں سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ یہ عدم مساوات صرف معاشی وسائل تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی مواقع، صحت کی دیکھ بھال، اور روزگار جیسے اہم شعبوں میں بھی واضح ہے۔
گوانتانامو بے حراستی مرکز انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک شرمناک باب ہے، جس کا آغاز 2002 میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے دوران ہوا۔ اس مرکز میں افراد کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے برسوں تک قید رکھا گیا، جو بین الاقوامی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
قیدیوں پر انتہائی غیر انسانی تشدد کیا گیا، جس میں پانی کے ذریعے دم گھٹنے کی تکنیک (waterboarding)، نیند سے محرومی، جسمانی اذیت، اور ذہنی دباؤ ڈالنے کے طریقے شامل تھے۔ ان رویوں نے نہ صرف قیدیوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ امریکہ کے انسانی حقوق کے دعووں پر سنگین سوالات اٹھائے۔
گوانتانامو کو بین الاقوامی قوانین سے بچنے کے لیے ایک “قانونی خلا” کے طور پر قائم کیا گیا، جہاں قیدیوں کو منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ انہیں ان کے اہل خانہ سے رابطے اور قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا، جو انسانی وقار اور حقوق کی کھلی توہین ہے۔
یہ مرکز دنیا بھر میں امریکہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انصاف کے اصولوں کو پامال کرنے کی ایک شرمناک علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور اقوام متحدہ بارہا اس مرکز کو بند کرنے اور وہاں ہونے والی زیادتیوں کے لیے ذمہ داروں کو جوابدہ بنانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
برطانیہ کا دوہرا معیار
اسی طرح، برطانیہ میں بھی اقلیتی برادریوں کو سماجی، اقتصادی، اور ادارہ جاتی امتیاز کا سامنا ہے۔ مہاجر برادریوں کے خلاف نسل پرستی اور غیر مساوی رویہ برطانوی تاریخ کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ 2011 کے لندن فسادات کے دوران، برطانوی حکومت نے سخت اقدامات کیے اور خصوصی عدالتوں کے ذریعے مقدمات کی سماعت کی۔ ان عدالتوں نے غیر معمولی تیزی سے مقدمات نمٹائے اور معمول سے زیادہ سخت سزائیں سنائیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، فسادات کے فوراً بعد صرف چند ہفتوں کے اندر 3,000 سے زائد مقدمات درج کیے گئے، جن میں 1,200 سے زائد افراد کو فوری طور پر جیل بھیج دیا گیا۔ یہ فیصلے “ریاستی ہنگامی ردعمل” کے تحت کام کرنے والی خصوصی عدالتوں کے ذریعے کیے گئے، جو تیزی سے فیصلے کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھیں۔
فرانس میں کریک ڈاؤن اور سزائیں
فرانس میں بھی ایک حالیہ مثال سامنے آئی ہے، جہاں 2023 میں نانتیرے (Nanterre) میں پولیس کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد ہونے والے فسادات میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ فرانسیسی حکومت نے خصوصی عدالتوں کے ذریعے 700 سے زائد افراد کو سزا سنائی، جن پر ہنگامہ آرائی، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے، اور تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔ وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین (Gérald Darmanin) کے مطابق، یہ فیصلے فرانس کے “قانونی اور عدالتی نظام کی تیزی” کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا مقصد امن و امان کی بحالی تھا۔ یہ عدالتیں، جنہیں “Tribunal Correctionnel” کہا جاتا ہے، فوری طور پر مقدمات کی سماعت کے لیے مقرر کی گئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ، فرانس، اور یورپی یونین کے دیگر ممالک، جو اپنے داخلی تنازعات کو دبانے کے لیے خصوصی عدالتی نظام کا استعمال کرتے ہیں یا جن کا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بڑا شرمناک ہے، پاکستان پر فوجی عدالتوں کے استعمال پر تنقید کرتے ہیں۔
پاکستان میں 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد فوجی عدالتوں کے ذریعے مقدمات نمٹانے کا فیصلہ غیر معمولی حالات میں کیا گیا تھا، جہاں قومی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق تھا۔ اس کے باوجود، یہی ممالک اپنے فیصلوں کو “قانون کی بالادستی” قرار دیتے ہیں اور پاکستان کے اقدامات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
یہ دوہرا معیار ان کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس جب اپنے داخلی فسادات کے دوران خصوصی عدالتی نظام استعمال کرتے ہیں تو اسے “قانون کی بالادستی” کہا جاتا ہے، لیکن جب پاکستان اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایسا کوئی قدم اٹھاتا ہے، تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ رویہ ان کے انسانی حقوق کے بیانیے کی چنندہ نوعیت کو واضح کرتا ہے، جو صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عراق، افغانستان، شام، اور لیبیا میں امریکی اور برطانوی مداخلت کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر عراق پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک اور ملک تباہ ہو گیا۔ افغانستان میں بیس سالہ جنگ نے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا اور بے شمار معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔ شام اور لیبیا میں مداخلت نے ان ممالک کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ فلسطین کے مظلوم عوام پر اسرائیلی مظالم پر خاموشی اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت بھی ان کی دوہرے معیار کی پالیسی کو اجاگر کرتی ہے۔
پاکستان میں فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کو سزا دینے کا معاملہ یقیناً جمہوری اصولوں اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مثالی طور پر، ایسے مقدمات کو سول عدالتوں کے ذریعے نمٹایا جانا چاہیے تاکہ شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے، یا پھر ان مقدمات کی سماعت کھلی عدالتوں میں ہو تاکہ شفافیت پر کسی قسم کے سوالات نہ اٹھائے جا سکیں۔ تاہم، بدقسمتی سے پاکستان کے زمینی حقائق انتہائی پیچیدہ ہیں۔
بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ عام عدلیہ کو اکثر سیاسی دباؤ اور سکیورٹی خطرات کا سامنا رہتا ہے، جس کے باعث سول عدالتوں کے لیے قومی سلامتی کے سنگین معاملات کی سماعت نہ صرف مشکل بلکہ بعض اوقات ناممکن ہو جاتی ہے۔ موجودہ عدالتی نظام کے اندر کئی ایسے مقدمات برسوں سے زیر التوا ہیں جو قومی سلامتی اور حساس نوعیت کے معاملات سے متعلق ہیں، اور ان کے فیصلے تاحال نہیں ہو سکے۔
مئی 9 کے حملے عام فسادات نہیں تھے
9 مئی 2023 کے واقعات کے دوران فوجی تنصیبات پر حملے محض عام فسادات نہیں تھے بلکہ قومی دفاعی ڈھانچے پر منظم حملے تھے، جو کسی بھی خودمختار ملک کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان حملوں کے خلاف فوجی عدالتوں کا استعمال ان غیر معمولی حالات میں ضروری سمجھا گیا جہاں قومی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ یہ بھی اہم ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتوں سے 29 افراد کو سزا سنائی گئی، اور اس وقت کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ آج انہی جماعتوں اور ممالک کی جانب سے اعتراضات سامنے آ رہے ہیں، جو ان کے مقاصد پر سوال اٹھاتے ہیں۔
مغربی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، اور یورپی یونین، انسانی حقوق کے نام پر اپنے جیوپولیٹیکل ایجنڈے کو فروغ دیتی ہیں۔ پاکستان کے خلاف حالیہ تنقید بھی اس کے جوہری پروگرام اور دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی ایک اور کوشش دکھائی دیتی ہے۔ ان طاقتوں نے ہمیشہ مختلف بہانوں کے تحت پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور اپنے اندرونی معاملات کو حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ملکی عوام کی قربانیوں اور اداروں کی جدوجہد نے ہمیشہ ملک کو بحرانوں سے نکالا ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ فوجی عدالتوں کے استعمال کو معمول نہ بنایا جائے ، بلکہ سول عدلیہ کو مضبوط ، مؤثر اور قابل اعتماد بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسے معاملات میں شفافیت ، ، انصاف، اور قانون کی بالادستی اور جمہوری اصولوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
ملکی عدالتی نظام کی بہتری کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار بنانے، مقدمات کے جلد اور شفاف فیصلوں کے لیے وسائل فراہم کرنے، اور سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنے جیسے اقدامات پاکستان کے عدالتی نظام کو مضبوط اور قابل اعتماد بنائیں گے۔
اگر مغربی طاقتیں واقعی اصلاح کی خواہش مند ہیں اور ان کا کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں تو انہیں پاکستان کو تعمیری مدد فراہم کرنی چاہیے۔ پاکستان کے عدالتی اور حکومتی نظام کو بہتر بنانے میں تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کرنا ایک بہتر راستہ ہو سکتا ہے۔ عالمی برادری کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ پاکستان کو سفارتی دباؤ کے بجائے عملی تعاون فراہم کرے تاکہ اس کے ادارے مضبوط ہوں اور ملک کے اندرونی مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔
دوسری جانب، مغربی ممالک کو اپنی منافقت کو ترک کر کے پہلے اپنے داخلی مسائل حل کرنے ہوں گے۔ جب تک امریکہ، برطانیہ، اور یورپی یونین اپنی داخلی ناانصافیوں اور دوہرے معیاروں کو ختم نہیں کرتے، ان کی تنقید غیر سنجیدہ اور غیر مؤثر سمجھی جائے گی۔ پاکستان اپنے مسائل کو حل کرنے اور عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ سنجیدگی سے اپنے گھر کو منظم کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ سیاستدانوں اور عوام کو چاہیے کہ وہ تاریخ سے سبق حاصل کریں اور یہ سمجھیں کہ اپنے مسائل کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنا ہی واحد راستہ ہے۔ کسی بیرونی ملک یا عناصر کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا نہ صرف قومی وقار کے خلاف ہے بلکہ اس کا انجام ہمیشہ تباہی اور بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان کی عظمت، خودمختاری، اور وقار ہر چیز سے مقدم ہیں، اور ان کے تحفظ کے لیے قوم کو یکجا ہو کر اپنے داخلی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ قومی وقار کے ساتھ جڑے یہ اصول ہر پاکستانی پر لازم کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی خودمختاری اور سالمیت پر کسی قسم کی سودے بازی نہ کریں۔ پاکستان کی بقا، ترقی، اور عظمت صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم اپنے اداروں کو مضبوط کریں، عدالتی نظام کو شفاف اور غیر جانبدار بنائیں، اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
بیرونی طاقتوں کے سامنے جھکنے یا ان کی مداخلت کو دعوت دینے کا رویہ غلامی کی ایک شکل ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وقت ہے کہ ہم بطور قوم اپنی داخلی کمزوریوں کو دور کریں، ایک خودمختار اور باوقار ریاست کے طور پر اپنی شناخت کو برقرار رکھیں، اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان ایک آزاد، خودمختار، اور مضبوط قوم ہے جو اپنے مسائل کا حل خود نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
(28دسمبر 2024)