GHAG

عمران خان کی آخری کال کا بیانیہ

اے وسیم خٹک

عمران خان نے 24 نومبر کو اپنی “آخری کال” کے ذریعے عوام کو حقیقی آزادی کے لیے باہر نکلنے کی دعوت دی ہے۔ یہ کال اس وقت دی گئی جب ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال غیر یقینی کا شکار ہے۔خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد سے عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس حوالے سے کوئی آخری کال کسی بھی سیاسی پارٹی بشمول پی ٹی آئی نے نہیں دی کیونکہ یہ عوام کے ساتھ ریلیٹڈ ایشو ہے ۔حتی کے مذمتی دو بول بھی نہیں آتے۔ گورنر صاحب کٹھ پتلی کی طرح تماشہ دیکھ کر شادی بیاہ کے پروگراموں میں شرکت کو ہی گورنری تصور کرتے ہیں اور ایک پریس ریلیز ایشو کرکے مٹی ڈال لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما صرف ایک عمران خان کو باہر نکالنے کے پر عمل پیرا ہیں اور اس کے لئے حکومتی وسائل اور مشینری کا دل کھول کر اس جواز پر استعمال کر رہے ہیں کہ یہ حکومتی پروٹوکول کا حصہ ہے ۔ اب آخری کال کے لئے بھی خیبر پختونخوا کے وسائل استعمال ہوں گے ۔

اس آخری کال کی مہم کو تحریک  انصاف نے مزید مؤثر بنانے کے لیے مختلف اضلاع میں ورکرز کنونشنز منعقد کیے ہیں، جن میں نوجوانوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بشریٰ بی بی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے “پختون بہادر” اور “الجہاد” کے نعروں کے ذریعے جوش پیدا کیا، جبکہ علی امین گنڈا پور نے بھی نوجوانوں کو تحریک دینے کے لیے جذباتی بیانات دیے۔ پشاور میں انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) کے کنونشن میں نوجوانوں کو منظم کرنے کی حکمتِ عملی ترتیب دی گئی اور شانگلہ سمیت دیگر اضلاع میں بھی کنونشنز جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پارٹی کے ہر ایم این اے اور ایم پی اے کو کارکنوں کی بڑی تعداد لانے کی ہدایت دی گئی ہے اور کسی بڑے اقدام کی تیاری کی جارہی ہے۔

تاریخ کو پلٹا جائے اور حوالہ جات دیکھے جائیں تو عمران خان کے دھرنوں کا سلسلہ 2013 کے انتخابات کے بعد شروع ہوا تھا، جب انہوں نے دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔ عمران خان نے دھرنوں کی سیاست کا آغاز 2013 کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات سے کیا۔ 2014 میں تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک غیر معمولی دھرنا دیا، جو 126 دن تک جاری رہا۔ اس دھرنے کا بنیادی مطالبہ انتخابی اصلاحات اور نواز شریف کی حکومت کے استعفے کا تھا۔ عمران خان نے یہ دھرنا “نیا پاکستان” کے خواب کے ساتھ منسلک کیا، جس میں انصاف، شفافیت، اور عوامی حقوق کی فراہمی کو بنیاد بنایا گیا۔

اس دھرنے کے دوران کئی اہم واقعات رونما ہوئے،سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی، بجلی کے بل جلائے گئے۔ پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا اور پھر 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور پر دہشت گردوں کے حملے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس سانحے میں 130 سے زائد بچے شہید ہوئے، جو پاکستانی تاریخ کے المناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اس واقعے کے بعد عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور دھرنے کو جاری رکھنا ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس اقدام کو عوامی سطح پر سراہا گیا، تاہم ناقدین نے اسے سیاسی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا۔

اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے بیانیے نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ “ایبسلوٹلی ناٹ” کا نعرہ اس وقت سامنے آیا جب عمران خان نے امریکی دباؤ کے تحت فوجی اڈے دینے سے انکار کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے یہ بیانیہ قومی خودمختاری اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔

ان کا موقف تھا کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کے لیے کام کر رہے ہیں اور کسی بیرونی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ یہ بیانیہ ان کے حامیوں کے لیے ایک نئی تحریک بن گیا، جبکہ مخالفین نے اسے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی ایک سیاسی چال قرار دیا۔

مارچ 2022 میں ایک مبینہ امریکی سائفر کا ذکر عمران خان نے اپنی تقاریر میں کیا، جسے انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش قرار دیا۔ ان کے مطابق، یہ سائفر ان کی حکومت کو گرانے اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر نئی حکومت تشکیل دینے کی ایک سازش کا حصہ تھا۔ سائفر کے اس بیانیے نے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پی ٹی آئی کے کارکنان کے جوش و خروش میں اضافہ کیا۔

سائفر بیانیہ عمران خان کے لیے ایک نیا سیاسی ہتھیار ثابت ہوا، لیکن اس کے حقائق پر مباحثے آج بھی جاری ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس بیانیے کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا، جبکہ حامیوں کے نزدیک یہ بیانیہ ان کے لیڈر کی غیرتِ ملی کا ثبوت ہے۔کیونکہ اب اسی امریکہ کو خطوط لکھے گئے ہیں کہ عمران خان کو باہر نکالنے میں ان کی مدد کی جائے۔

عمران خان کی سیاست کا ایک اہم پہلو ان کے عوامی اجتماعات اور دھرنے رہے ہیں، جن کے ذریعے انہوں نے عوام کو متحرک کیا اور اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کی توجہ مختلف چیلنجز پر مرکوز رہی، لیکن اقتدار سے ہٹنے کے بعد ان کا بیانیہ دوبارہ مزاحمت اور آزادی کی تحریک پر آ گئی۔

اب آخری کال کا مزاحمتی بیانیہ اور حالیہ اقدامات پاکستانی سیاست کے اہم موڑ ہیں۔ تاہم، یہ سوال باقی ہے کہ آیا ان کی یہ “آخری کال” واقعی عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوگی یا یہ بھی ماضی کے دھرنوں کی طرح کسی غیر متوقع موڑ پر ختم ہو جائے گی۔

لیکن مخالفین کے مطابق یہ تحریک عوامی حمایت کھو چکی ہے۔ کیا یہ تحریک حقیقی آزادی کی جانب بڑھ سکے گی یا ماضی کے دھرنوں کی طرح کسی سودے بازی پر ختم ہو جائے گی؟ یہ سوال ابھی بھی جواب طلب ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp