حال میں ہی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر سایہ منعقد کردہ پشتون جرگے کے مطالبات سامنے آئے، جس میں ایک دو کے علاوہ دیگر تمام مطالبات پر صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ لگتا ایساہے کہ پی ٹی ایم ایسے مطالبات سامنے رکھ کر خود کو ایسی بند گلی میں دھکیلنا چاہتی ہے جہاں ریاست کے پاس طاقت استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ بچے۔ایسا ہی ایک مطالبہ پورے قبائلی علاقے کو مفت بجلی کی فراہمی جبکہ پورے صوبے میں بجلی کی قیمت فی یونٹ پانچ روپے مقرر کرنا ہے۔
شاید اس مطالبے کے پیش نظر یہ سوچ ہے کہ خیبرپختونخوا سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس مطالبے کو ایک طرف رکھ کر اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ابھی صوبے نے وفاق کو اربوں روپے کی ادائیگی بجلی کے بلوں کی مد میں کرنی ہے۔ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ بجلی چوری اور نادہندگان کی شکایتیں بھی اسی صوبے سے موصول ہوتی ہیں ۔ اس سب کے باوجود جرگہ کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آنا اس گمان کو مزید پختہ کرتا ہے کہ پی ٹی ایم کا اصل مقصد صرف انتشار کو بڑھاوا دینا ہے۔
اس کے علاہ اعداد و شمار کے مطابق، خیبرپختونخوا میں موجود ڈیمز اور بڑے چھوٹے تمام بجلی پیدا کرنے والے منصوبے ملا کر 30,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں جبکہ 2020-21 میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا صوبہ پنجاب تھا، جس نے مجموعی طور پر 59,609 میگاواٹ بجلی پیدا کی، جبکہ دوسرے نمبر پر سندھ اور تیسرے نمبر پر خیبرپختونخوا نے بجلی پیدا کی۔اس کے برعکس بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں یہی صوبہ سب سے پیچھے ہے ۔سال 2022-23ء میں خیبرپختونخوا میں 137 ارب بجلی چوری اور نقصانات کے نذر ہوگئے جبکہ صوبے کے 7 اضلاع میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 75 فیصد سے زائد رہی اسی طرح خیبرپختونخوا کو مالی سال 2022-23 کے دوران 439 ارب کی بجلی فراہم کی گئی۔پاور ڈویژن کے مطابق خیبرپختونخوا سے مالی سال2022-23ء کے دوران 302 ارب روپے حاصل ہوئے۔
صوبے میں بجلی چوری اور نقصانات کی مد میں 137 ارب حاصل ہوئے،کرم میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 98 فیصد ہے، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 94 فیصد ہے، اورکزئی میں بھی بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 94 فیصد ہے، ٹانک میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 82 فیصد ہے۔کرک میں 78 فیصد اور بنوں میں 63 فیصد بجلی چوری اور نقصانات ہیں، ڈی آئی خان میں 65 فیصد، ہنگو میں 58 فیصد بجلی چوری اور نقصانات ہیں، چارسدہ میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 59 فیصد ہے، شانگلہ میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح 66 فیصد ہے۔
ان ہوشربا اعدادوشمار کے باجود صوبے کی انتظامیہ ابھی تک بجلی چوری پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے اور اب جرگہ کے ذریعے یہ مطالبہ رکھوایا گیا ہے کہ بجلی کی فراہمی کو سرے سے مفت کردیا جائے۔ ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے پانچ آئی پی پیز کے معاہدوں کو ختم کیا گیا جس کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا اور شنید یہی ہے کہ اس بار بجلی کے بلوں میں عوام کو کچھ ریلیف ملے گا ۔اگر خیبرپختونخوا کی حکومت بھی بجلی چوری پر قابو پالے اور دیگر واجبات وفاقی حکومت کو ادا کرے تو نہ صرف لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بجلی کے نرخوں میں بھی کافی کمی متوقع ہے۔
اسی طرح کا ایک اور مطالبہ بجلی کا منافع صوبوں میں برابر تقسیم کرنے کا بھی ہے۔ یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ جس صوبے میں بجلی چوری سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں اربوں کے واجبات ابھی صوبے نے ادا کرنے ہوں ، اس صوبے کا بجلی کے منافع میں کتنا حصہ بنے گا؟ یہ سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر پختونخواکی حکومت سنجیدگی سے کام کرے لیکن اس صوبے کا وزیراعلیٰ ہر دوسرے ہفتے سرکاری مشینری لے کر وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بول دیتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس پختون جرگہ نے اپنے وزیر اعلیٰ سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔