GHAG

10 میء کا تاریخی دن اور نئی علاقائی صف بندی

10 مئی کا تاریخی دن اور نئی علاقائی صف بندی

عقیل یوسفزئی
10 میء 2025 کو خطے کی جنگی تاریخ میں لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا ۔ اس روز صبح سویرے پاکستان نے روایتی حریف بھارت پر حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے اور زیادہ حملے کرتے ہوئے اس کی نصف درجن ریاستوں میں تقریباً دو درجن حملے کیے جس کے نتیجے میں ایس 400 جیسے جدید ملٹری انسٹالیشن سمیت 12 ملٹری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا گیا ۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ تقریباً 6 ملٹری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی تصدیق کی جبکہ سی این این نے یہ تعداد 7 اور 9 کے درمیان بتادی ۔ یہ حملے 9 اور 10 میء کی درمیانی شب پاکستان کی مختلف ائیر بیسز خصوصاً نور خان ایئر بیس راولپنڈی پر کرایے گیے ان بھارتی حملوں کے چند گھنٹے بعد کیے گئے جن میں کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا تھا ۔ فاینانشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان کا پلہ اس تمام دو طرفہ کارروائیوں کے دوران بھاری رہا جس کا کریڈٹ اس کے طاقتور آرمی چیف ، پاکستان کی فضائیہ اور میزائل ٹیکنالوجی کو جاتا ہے ۔ دوسری جانب سی این این اور بی بی سی نے اپنی رپورٹس میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کی حکمت عملی کو ناقابل یقین قرار دیا بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا کہ بھارت نے اس کے باوجود بہتر ” کارکردگی” کیوں نہیں دکھائی کہ اس کا دفاعی بجٹ پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ؟
ان دو معتبر عالمی میڈیا اداروں نے اپنی رپورٹس میں پاکستان کی بالادستی کو بعض دیگر عوامل کے علاوہ پاکستان کی فضائیہ میں شامل ان جیٹ طیاروں خصوصاً جے ٹھنڈر کو قرار دیا جس کے ذریعے سی این این اور بی بی سی کے مطابق پاکستان نے متعدد فرانسیسی ، امریکی اور روسی طیاروں کو مار گرایا ۔ یہ حملے جاری تھے کہ اسی دوران امریکی انٹیلیجنس نے بہت بڑے پیمانے پر پاکستان کی جانب سے کوئی غیر روایتی حملے کی اطلاع دے دی ( سی این این) جس کا دوسروں کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نوٹس لیا اور انہوں نے سی این این اور دیگر کی رپورٹس کے مطابق اپنے نائب صدر ، وزیر خارجہ اور سی آئی اے کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ ہنگامی طور پر بھارت اور پاکستان سے رابطے کرکے صورتحال کو مزید خطرناک بنانے سے روکنے کے لیے مداخلت کریں ۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے ساتھ فوری رابطے کیے گئے ۔ اس پراسیس میں امریکی خواہش کے مطابق چین ، سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی کردار ادا کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسی روز سہ پہر ساڑھے چار بجے خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایکس پر اعلان کردیا کہ ان کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت فوری طور پر سیز فائر پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی سیز فائر کے فیصلے کی تصدیق کی ۔
اس اعلان میں دوسرا اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ دونوں ممالک کسی ” تھرڈ سائٹ” پر آیندہ چند دنوں میں ایک مذاکراتی عمل کا آغاز کریں گے ۔
اس بدلتی صورتحال نے جہاں ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کے کیس اور اہمیت کی راہ ہموار کی وہاں مذاکرات سے انکاری بھارت کو پاکستان کے ساتھ تمام متنازعہ معاملات پر مذاکرات کی میز پر بٹھانے پر بھی مجبور کیا جس کو عالمی میڈیا نے پاکستان کی دفاعی بالادستی کے بعد سفارتی کامیابی کا نام دے دیا ۔ کہا گیا کہ چونکہ اس مجوزہ مذاکراتی عمل کی نگرانی یا میزبانی خود امریکہ کرے گا اس لیے اس کے نتیجے میں جہاں سندھ طاس معاہدہ کی منسوخی کا معاملہ طے ہونے کا راستہ ہوسکے گا وہاں کشمیر کا تنازعہ عالمی مذاکراتی مینڈیٹ کے باعث ایک بار پھر ٹیبل پر آسکے گا ۔ عالمی اور علاقائی ماہرین نے اس تمام پیشرفت کو ایک ایسے وقت میں دفاعی اور سفارتی دونوں سطح پر پاکستان کی کامیابی سے تعبیر کیا جبکہ پاکستان کے بارے میں چند برسوں سے یہ تاثر قائم کیا گیا تھا کہ یہ عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار ہوگیا ہے اور اس کی علاقائی اہمیت کم ہوکر رہ گئی ہے ۔
عالمی میڈیا کے علاوہ خود بھارت کے اندر موجود سنجیدہ ماہرین نے بھی اس تمام پیشرفت کو مودی سرکار اور بھارت کی شدید ناکامی قرار دیتے ہوئے کہنا شروع کردیا کہ مودی سرکار نے 22 اپریل کے پہلگام حملہ کی آڑ میں جذباتی اور جنگی بیانیہ تشکیل دیکر پاکستان کو ” اپر ہینڈ” پر آنے کا سنہری موقع فراہم کیا اور یہ کہ پاکستان ایک بھرپور علاقائی طاقت کے طور پر سامنے آنے لگا ہے ۔
ماہرین کے مطابق چند ہفتوں کی اس دفاعی ، سفارتی اور نفسیاتی ” کشمکش” نے عرصہ دراز کے بعد پہلی بار جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کی نئی سمت متعین کرنے کا راستہ ہموار کردیا ہے اور یہ بات بھی سامنے آنے لگی ہے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا پہلی بار مغرب کی بالادستی چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں ۔
( 11 / 5 / 2025 )

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

کیا واقعی جنگ ہوگی؟

اے وسیم خٹک پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کوئی آج کی بات نہیں۔ جب سے دونوں ممالک کرۂ ارض پر وجود میں آئے ہیں،

Read More »