GHAG

جاری ادارہ جاتی تصادم کے اثرات

شمس مومند

کسی تمہید اور لگی لپٹی بغیر بتاتا چلوں کہ فوج کی پشت پناہی کیساتھ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن ایک طرف اور سپریم کورٹ کے 8 ارکان دوسری طرف ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ مگر چیف جسٹس سمیت 6 ججز اس وقت اقلیت میں ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی کی طرح موقع کے انتظار میں ہیں۔اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹ بھی حکومت کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ کا کردار پہلے سے ہی متوازن اور غیر جانبدار لگتا ہے مگر لاہور ہائی کورٹ گزشتہ مہینے کمان کی تبدیلی کے بعد نسبتاً خاموش دکھائی دیتا ہے۔

سپریم کورٹ  کے جج صاحبان 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے متنازعہ فیصلے کے بعد دو مہینے تعطیلات کے مزے اڑاکر اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان ہوچکے ہیں اور گزشتہ روز انکی طرف سے الیکشن کمیشن کی وضاحت مانگنے والی اپیل پر انتہائی سخت لہجے میں جواب دیا گیا ہے مگر الیکشن کمیشن کے ترجمان نے بھی فوری ردعمل دیتے ہوئے اس لب ولہجے کو ایک آئینی ادارے کے خلاف دھمکی آمیز قراردیا ہے اور ساتھ ہی بتا دیا ہے کہ کسی بھی آئینی ادارے کو دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بعض آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید ججز صاحبان نے پارلیمنٹ میں زیر غور ترامیم کے ردعمل کے طور پر یہ فیصلہ نسبتاً عجلت میں اور شاید غصے میں تحریر کیا ہے۔ شاید جب تک آپ یہ کالم پڑھ رہے ہو، پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کیا جاچکا ہو۔ اور نہ بھی ہوا ہے تو ایک آدھ دن میں ہوجائے گا۔ اسکے بعد دیکھنا یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے ان 8 ججز صاحبان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ مگر خد شہ موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز صاحبان کے درمیان مزید اختلافات کھل کر سامنے آئے گی اور خدانخواستہ یہ اپنے اپنے مفادات اور خواہشات کیلئے باقاعدہ فریق بن کر ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہو جائیں گے۔

دوسری جانب 8 ستمبر  کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی جلسہ کے بعد چند گھنٹوں کیلئے وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی پراسرار گمشدگی اور پی ٹی آئی قیادت کی گرفتاریوں کے بعد وفاقی و پختونخوا حکومت اور عسکری اداروں میں تلخیاں اور دوریاں مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف واقفان حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی کو اپنے حدود و قیود بتا دئے گئے ہیں ساتھ ہی انکو سختی کیساتھ ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اسلام آباد کی بجائے اپنے صوبائی دارالحکومت میں گزارے اور صوبے میں بدامنی سمیت باقی معاملات سھنبالنے کی کوشش کریں۔مگر گمشدگی سے واپسی پر وزیر اعلی کے لب ولہجہ میں سختی مزید بڑھ گئی ہے۔صوبائی اسمبلی سے عسکری و انٹیلی جنس اداروں کو حدود وقیود بتانے کی قرارداد پاس کرنا  اور افغان قونصل جنرل سے ملاقات اسکی زندہ مثالیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعلی صاحب کے لئے دو کشتیوں پر سواری مزید ناممکن بن رہی ہے اور انھوں نے کشتیاں جلاکر سیاسی شہید بننے اور پارٹی ورکروں کے لئے ہیرو  کا درجہ حاصل کرنے کا راستہ چن لیا ہے۔

اگرچہ اٹھارویں ترمیم کے بعد طویل عرصے کے لئے گورنر راج کا نفاذ ممکن نہیں مگر جب کوئی بھی آئینی یا جمہوری شخصیت ریاستی پالیسی کے خلاف کھل کر سامنے آتا ہے تو پھر ریاست بھی آئینی حدود کا پابند نہیں رہتا ہے اور وہ مقابلے پر اتر آتا ہے اور ان حالات میں جیت ریاست اور اسکے طاقتور اداروں کی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتحال نہ تو آئینی وقانونی ہے نہ ہی خوش آئند۔ اس کا نتیجہ ملک وقوم کیلئے بھی نقصان دہ ہے اور خود متصادم افراد اور اداروں کیلئے بھی۔ مگر جب صورتحال یہ ہو کہ ان تشویشناک حالات میں بھی ہمارے سیاسی و عسکری حکام ایک دوسرے کیساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کے روادار نہ ہو۔ پولیس فوج، پارلیمنٹ، عدالت صوبائی اور وفاقی حکومت الیکشن کمیشن سمیت ہر بندہ اور ادارہ اپنی اپنی بولی بولتا ہے ہر ایک خود کو درست باقی سب کو غلط سمجھتا ہے تو پھر نقارخانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے۔ دیکھتے رہیے اور افسوس کیساتھ ہاتھ ملتے رہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp