محمود جان بابر
دس سال پہلے پشاور میں بچوں کے سکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے جب پوری قوم کو خون کے آنسو رُلایا تواگلے چند روز کے اندر ہی اس وقت کی نواز حکومت نے اپنے بدترین مخالف عمران خان اور ہر چھوٹی بڑی جماعت کے رہنماوں سمیت آرمی چیف کو ایک چھت تلے جمع کرکے قومی اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی اور اسی دن بعض اہم ترین نکات پر مشتمل ایک حکمت عملی “نیشنل ایکشن پلان” کی منظوری دی گئی۔
نیشنل ایکشن پلان کیا تھا؟
اس اہم ترین پلان سے لوگوں کو امید بندھ چلی کہ اگر اس پر عمل ہوگیا تو پاکستان دو بنیادی مسائل دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ دے گا یہ وہ وقت تھا جب عمران خان نے اپنا 126 دن لمبا دھرنا ختم کیا۔
اس پلان کے تحت جہاں دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لئے خصوصی فوجی عدالتیں بنیں وہیں ہر قسم کی مسلح ملیشیائیں بنانے پر پابندی لگائی گئی۔ دہشت گردوں کو مالی مدد فراہم کرنے والے ہر راستے کو بند کرنے کی منظوری دی گئی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لئے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ ہوا۔ میڈیا میں دہشت گردوں کو کوریج دینے پر پابندی عائد کی گئی۔ فاٹا (موجودہ قبائلی اضلاع) میں اصلاحات کے ذریعے ایسے ماحول کو ختم کرنے کی منظوری دی گئی جس کا فائدہ دہشت گردوں کو ہوسکتا ہو۔ دہشت گردوں کے کمیونیکیشن نظام کو تباہ کرنے کا بھی فیصلہ اسی پلان کا حصہ تھا۔
اس پلان کے تحت باقی ملک کی طرح پنجاب میں بھی انتہا پسندی کو روکا جانا تھا، کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جانا تھا، بلوچستان میں سیاسی مفاہمت کو فروغ دینے کے لئے وہاں کی حکومت کو تمام فریقین کی جانب سے مکمل آزادی دی جانی تھی، فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو انجام تک پہنچایا جانا تھا، پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغانوں کو رجسٹر کرنے اور کچھ کو واپس افغانستان بھیجنے کے لئے جامع پالیسی بنائی جانی تھی۔
پلان کا نام بھی بہت اچھا تھا اوراس کے نقاط بھی بڑے اعلی تھے اسی لئے اس سے بہت سی امیدیں وابستہ کی گئیں۔
اس سے پہلے ہی ضلع شمالی وزیرستان (سابقہ شمالی وزیرستان ایجنسی) میں دہشت گردوں کے پیر اکھاڑنے کے لئے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا جاچکا تھا جس کے نتیجے میں وہاں پر چھپے ہوئے زیادہ تر دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے تھے یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں امریکہ اور اسکے اتحادی موجود تھے اور وہاں اشرف غنی کی حکومت تھی۔
دس سال بعد کیا صورتحال ہے؟
دس سال پہلے اس پلان کا آغاز ہوا تو اب تو یقینا ًاس کے کچھ بڑے ثمرات ملنے چاہیئے تھے اور یقینا ًبعض سیکٹرز میں ملے بھی ہونگے لیکن بعض شعبے ایسے ہیں جہاں پر معاملہ پہلے سے زیادہ دگرگوں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران اس سے زیادہ دہشت گرد واپس پاکستان میں آکر بس چکے ہیں جتنے آپریشن ضرب عضب کے وقت بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب وہ شمالی وزیرستان سے زیادہ تعداد میں دیگر اضلاع میں موجود ہیں۔
ان کی مالی مدد پہلے سے زیادہ جاری ہے پہلے انہیں اگر چندوں اور بیرونی فنڈنگ سے مدد ملتی تھی اب وہ پاکستان میں روزانہ اربوں روپے کی کمائی والے ایرانی پٹرول، منشیات و ٹائروں کے سمگلروں، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والوں، غیرقانونی تمباکو سے اربوں کمانے والوں، بجلی چوروں اور دیگر ناجائز ذرائع سے کمائی کرنے والوں کے مال میں حصہ دار ہیں اور یہ سب حرام کمانے والے اس لئے دہشت گردی میں اضافے کے لئے فنڈنگ کرتے ہیں تاکہ سیکورٹی فورسز و پولیس اور کسٹمز جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے مصروف یا نشانے پر رکھ کر مارے جاتے رہیں اور روزانہ اربوں روپے کمانے والوں کا راستہ صاف رہے۔
اس ساری روداد کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جاسکے کہ پاکستان میں روزانہ ب12 سے 15روپے فی لیٹر سمگل ہونے والا 60 لاکھ لیٹر ایرانی پٹرول سرکاری خزانے کو 80کروڑ روپے روزانہ کا ٹیکہ لگاتا ہے اب اگر اس پٹرول کا روٹ کھلا رکھنے کے لئے اس میں کچھ کروڑ وہ دہشت گردی پر لگادیں تو یہ گھاٹے کا سودا تو نہیں۔
اسی فہرست میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بھی ہیں، غیرقانونی تمباکو کا کاروبار بھی لوگوں کو اربوں پتی بنارہا ہے لیکن قوم مسلسل دلدل میں پھنس رہی ہے، کراچی سے خیبر تک بجلی چوری کرنے والے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا روزانہ نقصان کروارہے ہیں ۔منشیات اور ٹائروں کی سمگلنگ کے اربوں روپے روزانہ ان کے علاوہ ہیں۔
اس سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں سرکاری، غیرسرکاری، پولیس، کسٹم، ایکسائز، بارڈر فورسز، ایف آئی اے وغیرہ وغیرہ کون ایسا ہے جس کا نام تباہی کا باعث بننے والوں کی اس فہرست میں شامل نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد کا نام تو صرف فیس سیونگ کے لئے استعمال ہورہا ہے اصل دہشت گردی توان کو فنڈ فراہم کرنے والے سمگلر مافیا اور پاکستان کے اداروں اور اسمبلیوں میں ان کے بھیجے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں ہورہی ہے جو اس ملک کا نظام ہی ٹھیک نہیں کرنے دے رہے اور ملک اس حال تک پہنچ گیا ہے کہ ہزاروں نہیں دو لاکھ کمانے والا بھی اپنا گھر چلانے کے قابل نہیں رہا۔
ایسے میں کیا کسی کے پاس اس مسئلے کا حل ہے تو یہ جواب یقینا ًنفی میں ہے ہاں ایک حل ہے اور وہ وہی ہے جو پشاور میں بچوں کے سکول پر حملے کے بعد ایک میز کے ارد گرد بیٹھ کر سب نے مشترکہ طور پر نکالا اور پھر کہیں سے اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔
ورنہ حالت یہ ہے کہ کوئی سیاسی قوت دوسری کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، حکومتیں اپنے ہی عوام کو نچوڑنے میں عوامی مسائل کا حل ڈھونڈتی ہے، قومی سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایک دوسرے کے ساتھ یکجان نظر نہیں آتے۔ سب اپنی اپنی ذمے داریاں دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کررہی ہیں کہ فلاں نے کرنا ہے ہم پر کوئی ذمے داری ہی نہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی پریشان ہے اور ان کے مسائل کا حل پھر وہی ہے کہ سب سیاسی جماعتیں بشمول حکومت مخالف جماعتیں بھی، فوج اور ہر وہ فریق جو اس معاملے میں کہیں بھی کوئی اثر رکھتا ہے سب کو ایک چھت تلے بٹھایا جائے ان کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کی جائے تاہم انہیں اس وقت تک باہر نکلنے کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ کسی اتفاق رائے تک نہیں پہنچتے، جس کو جس سے جو شکوہ ہے وہ ختم کرکے ایک قوم نہیں بن جاتے اس وقت تک کسی کو باہر نہ آنے دیا جائے دروازے پر تالہ ہو اور یہ اسی وقت کھلے جب سب ایک نئے سماجی دستاویز پر دستخط کردیں۔
نوٹ: محمود جان بابر سینئر صحافی اور پشاور میں سما ٹی وی کے بیورو چیف ہیں۔ یہ کالم ان کی ویب سائٹ www.crossroads24.com/pk/ پر شائع ہوا ہے جو ان کی اجازت سے یہاں پر بھی شائع کیا جارہا ہے۔