GHAG

پی ٹی آئی کی فائنل کال کا انجام

عقیل یوسفزئی

غیر حقیقت پسندانہ دعوؤں اور خیبرپختونخوا حکومت کے وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود  پی ٹی آئی کی “فائنل کال” خلاف توقع نتائج کی حصول تو ایک طرف دباؤ ڈالنے میں بھی ناکام رہی ہے تاہم حیرت کی بات یہ کہ خیبرپختونخوا کے “مشکوک” وزیر اعلیٰ نے مانسہرہ پہنچنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ احتجاج جاری رہے گا۔ وہ اور بشریٰ بی بی زخمی اور گرفتار کارکنوں کو اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس کے باوجود خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کا دعویٰ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ پی ٹی آئی نے جو فارمولا بنایا تھا اس کے حساب سے مذکورہ ایونٹ میں کم از کم 9 لاکھ کارکنوں نے شرکت کرنی تھی مگر پی ٹی آئی کے اپنے لیڈروں کے بقول اس میں محض 40 ہزار کارکن اور عوام شریک ہوئے جو کہ انتہائی کم ہے۔ ان میں بھی 90 فیصد کا تعلق خیبرپختونخوا سے رہا ہے ۔ زخمیوں اور گرفتار افراد کا زیادہ تر تعلق بھی خیبرپختونخوا سے بتایا جارہا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق تقریباً 900 کارکن گرفتار کیے گئے ہیں جن میں سینکڑوں کے خلاف دوسرے مقدمات کے علاوہ دہشتگردی کے مقدمات بھی قائم کئے گئے ہیں۔ گرفتار افراد میں افغان باشندے بھی شامل ہیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی المعروف پیرنی اور وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی بعض سنگین نوعیت کے نئے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ اس “میگا” ایونٹ میں بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کے بغیر کوئی قابل ذکر مرکزی لیڈر نظر بھی نہیں آیا۔ دور دراز کے بڑے شہروں میں کوئی ایک بڑا احتجاج کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ اس تمام صورتحال کے نتیجے میں جہاں پی ٹی آئی کی مقبولیت کے دعووں کو سخت دھچکا لگا ہے وہاں پارٹی میں پہلے سے موجود اختلافات بھی شدت اختیار کرگئے ہیں اور اس وقت حالت یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی قائدین نیشنل میڈیا پر کھل کر بعض قائدین اور ان کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ اس ضمن میں سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوں نے جہاں ایک طرف ان لیڈروں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کردیے ہیں جو کہ “غائب” رہے بلکہ یہاں تک کہا کہ پوری کی پوری حکمت عملی ناقص اور مبہم تھی۔ بیرسٹر محمد علی سیف اور بعض دیگر نے آن دی ریکارڈ بتایا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سنگجھانی میں پڑاؤ ڈالنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کس کے کہنے پر اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا؟ پارٹی ذرائع اس کی ذمہ داری بشریٰ بی بی پر ڈال رہے ہیں اور اسی تناظر میں یہ بات زیر گردش ہے کہ پارٹی کا کنٹرول موصوفہ نے سنبھال لیا ہے اور اس معاملے پر نہ صرف بہت سے اختلافات کی اطلاعات زیر گردش ہیں بلکہ خود عمران خان کی فیملی بھی تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کارڈز عملاً ختم ہوکر رہ گئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اب مزید کسی محاذ آرائی یا مہم جوئی کی بجائے صوبے کے سیکورٹی اور انتظامی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ اس صوبے کو شدید قسم کے چیلنجز درپیش ہیں اور عوام اب اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts