GHAG

پاکستان میں میڈیا پر کنٹرول کی کہانی

19-12-2024

تحریر: اے وسیم خٹک

پاکستان میں میڈیا پر کنٹرول کی تاریخ 1960 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں شروع ہوئی۔ اس وقت پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس (PPO) نافذ کیا گیا، جس کے ذریعے حکومت مخالف مواد پر پابندیاں لگائی گئیں۔ اس اقدام کا مقصد حکومت کی پوزیشن کو مستحکم کرنا اور مخالف آوازوں کو دبانا تھا۔ اس کے بعد 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں میڈیا پر سنسرشپ مزید سخت ہوئی۔ صحافیوں کو اپنی رپورٹنگ میں احتیاط برتنے کی ضرورت تھی کیونکہ حکومت نے غیرمعمولی طور پر سخت قوانین متعارف کرائے تھے، جن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی میڈیا پر کنٹرول کا سلسلہ جاری رہا اور 2002ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد الیکٹرانک میڈیا کو ضابطے میں لانا تھا۔

عمران خان کے دور حکومت میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے گئے۔ 2016 میں پیکا آرڈیننس (Prevention of Electronic Crimes Act) متعارف کرایا گیا، جس میں مختلف جرائم کی روک تھام کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئیں، خاص طور پر جعلی خبروں اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کے لیے۔ ان ترامیم میں سائبر بلیک میلنگ اور ڈیجیٹل فراڈ جیسے جرائم پر بھی تیزی سے کارروائی کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ تاہم، ان ترامیم کو صحافیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دیا گیا اور عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے 2020 میں سوشل میڈیا رولز متعارف کرائے گئے، جن کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستانی قوانین کے مطابق مواد کو فلٹر کرنے اور پاکستان میں دفاتر قائم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ حکومت کو حساس مواد ہٹانے کا اختیار بھی دیا گیا، لیکن ان قوانین کو پرائیویسی اور آزادیٔ اظہار کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی دوران خیبر پختونخوا حکومت نے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو اپنی پارٹی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے بھرتی کیا اور اس کے لیے 11 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا۔ تاہم، یہ اقدام سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہونے پر شدید تنقید کا سامنا کرتا رہا۔

9 مئی 2023 میں سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی غلط معلومات اور پروپیگنڈے نے عوامی سطح پر شدید انتشار پیدا کیا، جس کا اثر ملکی استحکام پر پڑا۔ پھر 24نومبر کا دن آیا جس کو آخری کال کا نام دیا گیا۔کہ عمران خان کو اس دن رہا کیا جائے گا جس کے لئے پی ٹی آئی کے ورکروں اور لیڈروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔جس کے بعد ویڈیوز کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر سے ایک پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں موجودہ حکومت نے سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے مزید سخت قوانین متعارف کرائے ہیں۔ حکومت نے چیئرمین پی ٹی اے کی سربراہی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں مختلف ریاستی اداروں کے نمائندے شامل ہیں، تاکہ سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے کے ذمہ دار عناصر کی نشاندہی کی جا سکے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ کمیٹی میں جوائنٹ سیکرٹری داخلہ، ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ، ڈائریکٹر آئی ٹی انفارمیشن، آئی بی اور دیگر اداروں کے اہلکار شامل کیے گئے ہیں۔

پاکستان میں میڈیا پر کنٹرول کی کوششیں ہمیشہ ریاستی مفادات کے تحفظ کے نام پر کی جاتی رہی ہیں، لیکن ان کے اثرات آزادیٔ اظہار اور جمہوری اقدار پر بھی پڑے ہیں۔ جب تک حکومت اور عوام کے درمیان ایسا توازن قائم نہیں ہوتا جو آزادیٔ اظہار اور قومی سلامتی دونوں کو مدنظر رکھے، اس وقت تک یہ مسائل حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہوتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp