جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان کو پی ٹی آئی کی کسی فائنل کال کی کوئی تفصیل معلوم نہیں کیونکہ وہ ملک سے باہر تھے تاہم انہوں نے خیبرپختونخوا میں جاری دہشتگردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ گزشتہ 15 برسوں سے کشیدگی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر حکومت کو امن کے قیام کی کسی عملی کوشش کی بجائے سیاسی چیزوں سے فرصت نہیں ہے۔
مرحوم الیاس بلور کی فاتحہ خوانی کے دوران پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر ان سمیت عوام کو سخت تشویش لاحق ہے مگر حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں ہے اور حکمران سیاسی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم سے بعض وہ شقیں نکال دی تھیں جو کہ سیاسی مخالفین یا دیگر کو لمبے عرصے تک زیرحراست رکھنے سے متعلق تھیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں 24 نومبر کی پی ٹی آئی کی کال سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کو اس بارے کچھ معلوم نہیں کیونکہ وہ کافی دنوں سے برطانیہ میں تھے۔
دوسری جانب وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی دوسروں کے بچوں کو اسلام آباد پر چڑھانے کے ساتھ اپنے بچوں اور بچیوں کو بھی اس احتجاج میں لے آئیں تاکہ یہ پتہ تو چلے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو بھی لاسکتے ہیں۔ خواجہ آصف کے بقول خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ دو بار کارکنوں کو کھلے میدان میں چھوڑ کر “روپوش” ہوئے، اب کے بار وہ کیا کریں گے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ احتجاجی کال کا وہی انجام ہوگا جو کہ اس سے قبل ہوتا رہا ہے۔
ادھر خیبرپختونخوا کے حکومتی ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے مجوزہ احتجاجی کال کے لیے صوبے کے سرکاری وسائل کے استعمال کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ کہ تمام انتظامات پی ٹی آئی خود کرے گی۔ مگر دوسری جانب سی ایم ہاوس پشاور پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور اتوار کے روز بھی علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے پارٹی کے لیڈروں اور ارکان اسمبلی سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ ان کو باقاعدہ ہدایات بھی جاری کیں۔ اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ گزشتہ روز صوبے کے بعض پراجیکٹس سے وابستہ ٹھیکیداروں اور کمپنیوں کے معاملات پر وزیر اعلیٰ کے بھائی فیصل امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی کافی تلخی ہوئی اور وزیر اعلیٰ کو خود مداخلت کرنا پڑی۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یہ نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ قابل گرفت بھی ہیں کیونکہ ایک تو بشریٰ بی بی کسی عوامی پوسٹ پر فائز نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کی پارٹی ان کو “غیرسیاسی خاتون ” قرار دیتی آرہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خیبرپختونخوا کے حکومتی معاملات اور اداروں کی پرفامنس پر بھی توجہ دی جائے اور غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کیا جائے تاکہ سیکورٹی چیلنجز اور گورننس سے متعلق مسایل کا حل نکالا جائے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں تمام ملٹری چیفس کے علاوہ وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ وفاقی وزیر بھی مدعو کئے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو اس اجلاس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے کیونکہ اجلاس بلانے کا بنیادی مقصد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری دہشت گردی کا جائزہ لینا اور مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا بتایا جارہا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق مذکورہ اجلاس میں 24 نومبر کی پی ٹی آئی کے احتجاج کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔